کاوثر بن ہانیا کی دی وائس آف ہند رجب جمعرات کو وینس فلم فیسٹیول میں ریلیز کیا گیا اس فلم نے تاریخ رقم کی، اس فلم کو دیکھنے والوں نے آنکھوں میں آنسوؤں کا سیلاب لیے ریکارڈ 23 منٹ تک کھڑے ہو کرتالیاں بجائی اور "آزاد فلسطین" کے نعروں سے پورا سالا گرانڈے گونج اٹھا۔
یہ فلم پانچ سالہ ہند رجب کے آخری لمحات پر مبنی ہے، جسے اسرائیلی آرمی نے جنوری 2024 میں غزہ میں مار دیا تھا۔ جو اپنے رشتے داروں کے ساتھ غزہ شہر سے نکلنے کی کوشش کر رہی تھی۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کے جب پانچ سالہ ہند رجب اپنے چچا، چچی، اور کزنز کے ساتھ ایک گاڑی میں سوار ہو کر شہر سے نکل رہی تھی تبھی راستے میں اسرائیلی فوج نے اس گاڑی پر حملہ کر دیا۔ اس حملے میں سوار سارے لوگ جاں بحق ہو چکے تھے۔ اس گاڑی میں سوار ہند رجب کا کزن بھائی جو ابھی تک زندہ تھا اپنے دادا سے فون پر بات کر تے ہوئے حالات سے آگاہ کر رہا تھا تبھی اچانک اسرائیلی فوج کی گولیوں نے معصوم رجب کے کزن بھائی کو بھی ہمیشہ کے لیے خاموش کر دیا۔
بی بی سی نے اپنے ایک رپوٹ میں لکھا ، چھ سالہ ہند رجب کو اس وقت نشانہ بنایا گيا جب وہ اپنی چچی، چچا اور تین کزنز کے ساتھ کار میں شہر سے فرار ہو رہی تھیں۔ہند اور ایمرجنسی کال آپریٹرز کے درمیان فون پر ہونے والی باتوں کی آڈیو ریکارڈنگ سے پتا چلتا ہے کہ کار میں صرف چھ سالہ بچی زندہ بچی تھی اور وہ اپنے رشتہ داروں کی لاشوں کے درمیان اسرائیلی فورسز سے چھپ رہی تھی۔ایک موقع پر وہ ایمرجنسی سروسز سے کہتی ہیں کہ ’ٹینک میرے سے کافی قریب ہے۔ وہ پاس آ رہا ہے۔کیا آپ مجھے آ کر بچا سکتے ہیں؟ مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے۔‘
اس فلم میں شامل حقیقی ریکارڈنگ میں ہند رجب یہ کہتے ہوئے سنی گئی ہیں پھر اچانک گولیوں کی آواز کے بیچ اس معصوم کی آواز بند ہو جاتی ہے۔ جولائی 2024 کی اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ میں اس حملے کا ذمہ دار براہ راست اسرائیلی فورسز کو قرار دیا گیا تھا۔ اسرائیلی فوج نے ذمہ داری سے انکار کرتے ہوئے کہا ہے کہ واقعہ کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔
وینس کے سامعین نے جب اس فلم کو دیکھا ان سب کی آنکھیں نم ہو گئی۔ اس فلم کے اداکار معتز ملحّيس نے فلسطینی پرچم لہرایا اور فلم کے ختم ہونے کے بعد بھی تالیاں بجتی رہیں۔ اس فلم کے ایگزیکٹو پروڈیوسر Joaquin Phoenix اور Rooney Mara کاسٹ اور عملے کے ساتھ رجب کی تصویر لیے کھڑے تھے۔ Joaquin Phoenix نے سیز فائر کے لیے فنکاروں کا پن بھی پہنا تھا۔
کاوثر بن ہانیا کی یہ فلم جو پہلے آسکر کے لیے نامزد ہو چکی ہیں، نے کہا کہ وہ امید کرتی ہیں کہ یہ فلم ایک غیر انسانی عالمی بیانیے کا مقابلہ کر سکتی ہے یہ ان لوگوں کو آواز اور چہرہ دینے کے لیے سینما اور آرٹ بہت اہم ہیں۔ اس سے پہلے پریس کانفرنس میں کہا گیا تھا کے، ہند رجب کی کہانی اس کی آواز ان 19,000 بچوں میں سے ایک ہے جو صرف پچھلے دو سالوں میں غزہ میں جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔