نیپال میں گزشتہ ماہ ستمبر2025 میں 'جین زی'کا پر تشدد احتجاج ہوا ،جسکے بعد وہاں کی حکومت کو استعفی دینے پر مجبور ہونا پڑا۔جسے پوری دنیا نے دیکھا تاہم نیپال جین زی'مظاہرے کے بعد اب مراکش میں بھی ' جین زی' نے حکومتی پالیسیوں کے خلاف احتجاج شروع کر دیا ہے۔احتجاج نے اب پرتشدد رخ اختیار کر لیا ہے۔ ابتدائی طور پر تعلیم اور صحت کی دیکھ بھال میں بہتری کے مطالبات کے ساتھ شروع ہوا یہ احتجاج اب وہ پورے ملک میں پھیل چکا ہے۔
پرتشدد احتجاج کو روکنے کے لیے پولیس کی جانب سے ابتدائی طور پر آنسو گیس کا استعمال کیا گیا لیکن جب حالات قابو سے باہر ہو گئے تو گولیوں کا سہارا لیا گیا۔ جسکی وجہ سے دو افراد ہلاک اور قریب 300 زخمی ہوئے ہیں۔
کیسے شروع ہوا احتجاج؟
مظاہرین نے 2030 فیفا ورلڈ کپ کی تیاریوں پر اربوں خرچ کرنے پر مراکش کو تنقید کا نشانہ بنایا، مظاہرین کا کہنا ہے مالیاتی بحران اور ناقص انفراسٹرکچر کی وجہ سے اسکول اور اسپتال بدستور مشکلات کا شکار ہیں، جس سے رہائشیوں کو خاصی مشکلات کا سامنا ہے۔ جسے لیکر جین زی کا غصہ پھوٹ پڑا،مقامی میڈیا رپورٹس کے مطابق، احتجاج کا اہتمام 'جین زی 212'نامی ایک یوا جماعت نے کیا۔یہ تنظیم نوجوانوں کو آن لائن پلیٹ فارمز جیسے TikTok، Instagram، اور Discord پر جوڑ رہی ہے۔ پچھلے ایک ہفتے میں ، گروپ 3,000 ممبروں سے بڑھ کر 130,000 ہو گیا ہے۔ تنظیم کا کہنا ہے کہ اس کی لڑائی حکومت کے خلاف ہے، سکیورٹی فورسز کے خلاف نہیں۔ منگل اور بدھ کی درمیانی شب تشدد کئی شہروں میں پھیل گیا۔
فیفا ورلڈ کپ بنا غصے کی وجہ :
حکومتی اعداد و شمار کے مطابق یہاں بے روزگاری کی شرح 12.8 فیصد ہے جبکہ نوجوانوں کی بے روزگاری 35.8 فیصد تک پہنچ گئی ہے۔ گریجویٹس میں یہ شرح 19فیصد ہے۔ نوجوانوں کا الزام ہے کہ حکومت 2030 فیفا ورلڈ کپ کی تیاریوں پر اربوں ڈالر خرچ کر رہی ہے جبکہ اسکولوں اور ہسپتالوں کی حالت ابتر ہے۔ تاہم ہر جگہ احتجاج پرتشدد نہیں تھا۔ کئی شہروں میں مظاہرے پرامن رہے۔
بڑے پیمانے پر نقصان کی اطلاعات :
مظاہروں اور پرتشدد جھڑپوں کی وجہ سے مراکش کے کئی شہروں سے بڑے پیمانے پر نقصان کی اطلاعات سامنے آئی ہیں۔ حکام کے مطابق تشدد کے دوران پولیس کی 140 سے زائد گاڑیوں اور 20 سے زائد پرائیویٹ کاروں کو آگ لگا دی گئی۔ سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی ویڈیوز میں لوگوں کو ہڈ پہنے احتجاج کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ ہجوم میں سے بہت سے لوگ پولیس پر پتھراؤ کرتے، کچرے کے ڈبوں کو آگ لگاتے اور شاپنگ سینٹرز کے قریب کے علاقوں میں آگ لگاتے نظر آ رہے ہیں۔
کتنے لوگ زخمی اور گرفتار ہوئے؟
اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق وزارت داخلہ نے بتایا کہ اب تک 263 پولیس اہلکار اور 23 شہری زخمی ہوئے ہیں۔ 409 افراد کو حراست میں لیا گیا ہے جن میں سے 193 کو مقدمے کا سامنا کرنا پڑے گا۔ کئی واقعات میں اراک عناصر پر آتش زنی اور تشدد کا الزام لگایا گیا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ مراکش میں نوجوانوں کے غصے کی بڑی وجہ بے روزگاری اور تعلیم اور صحت کا ناقص نظام ہے۔