’بہار اور صوفی واد‘ کا عنوان خود ہی ظاہر کرتا ہے کہ یہ کتاب بہار میں صوفی ازم کی تاریخ اور ورثے کے لیے وقف ہے۔ مصنف نے بہار کے صوفی بزرگوں کی زندگیوں، ان کے روحانی سلسلوں، اور معاشرے پر ان کے اثرات کو معتبر حوالوں کے ساتھ سادہ زبان میں پیش کیا ہے۔ اس کے علاوہ، صوفیوں کی آمد کے بعد بہار میں سماجی و ثقافتی تبدیلیوں پر تفصیل سے بحث کی گئی ہے۔
یہ 308 صفحات کی کتاب سید امجد حسین کی محتاط تحقیق اور لگن کا نتیجہ ہے۔ اس میں صوفی بزرگوں کی سوانح، بہار میں صوفی روایات، مصنف کا اندازِ تحریر اور استعمال شدہ ذرائع کی فہرست شامل ہے۔ کتاب کو پڑھنے والوں کے تجسس کو برقرار رکھنے کے لیے کہانی کو دلکش انداز میں پیش کیا گیا ہے ۔جس سے قارئین کتاب کے دلکش بیانیے میں خود کو پوری طرح غرق کر سکتے ہیں۔
کتاب کا آغاز ایک باب سے ہوتا ہے جس کا عنوان ہے ’’ہندوستان میں اسلام‘‘، جہاں مصنف دو حقائق بیان کیے ہیں: پہلا، ہندوستان کی مسلم آبادی کی اکثریت اہل سنت والجماعت کی روایت پر عمل کرتی ہے، اور دوسرا، ملک کی پہلی مسجد عرب تاجروں نے 620–623 عیسوی کے درمیان بھاؤنگر، گجرات میں بنائی تھی۔ پروفیسر محبوب دیسائی کے کام سے نقل کردہ یہ معلومات قارئین کے لیے تازہ اور دلکش بصیرت فراہم کرتی ہیں۔
ایک ایسے دور میں جہاں تاریخ کو اکثر من گھڑت داستانوں کے ذریعے مسخ کیا جاتا ہے اور بعض خطوں کو جان بوجھ کر نظر انداز یا مٹا دیا جاتا ہے، ایسے مقامات کی مستند تاریخ کو محفوظ رکھنا ناگزیر ہو جاتا ہے۔ سید امجد حسین کی تعلیم یافتہ قارئین کو اس مقصد سے آگاہ کرنے کی کوشش قابل تعریف ہے۔
اگلا باب ایک براہ راست سوال اٹھاتا ہے: ’’صوفی ازم کیا ہے؟‘‘ یہ باب کبیر کے ایک شعر سے شروع ہوتا ہے، جو کتاب کے شاعرانہ انداز کی فضا قائم کرتا ہے۔ مختلف عالموں کی صوفی ازم کی تعریفیں نقل کی گئی ہیں، جو کتاب کی صداقت کو بڑھاتی ہیں۔
کتاب کا مرکزی حصہ، ’’بہار اور صوفی واد‘‘، پھر سامنے آتا ہے۔ مصنف وضاحت کرتے ہیں کہ اسلام اور صوفی ازم بہار میں کیسے پہنچے، جو داستان کی روح کو تشکیل دیتا ہے۔ بہار میں رائج صوفی سلسلوں پر تفصیل سے بحث کی گئی ہے۔ اگرچہ ہندوستان میں چار بڑے سلسلے—قادری، چشتی، سہروردی، اور نقشبندی—نمایاں ہیں، کتاب میں رضوی (رضا) سلسلے کا بھی ذکر ہے۔ اسے پڑھ کر مجھے صوفی روایات کی وسیع تنوع کا علم ہوا۔
مصنف کی صوفی بزرگوں کے لیے شاعرانہ خراج تحسین (منقبت) کتاب کو مزید بلند کرتی ہے، جو ان کی دوہری شناخت کو ظاہر کرتی ہے—ایک سخت گیر محقق اور ایک باصلاحیت شاعر کے طور پر۔ ذیل میں حضرت سید احمد جاجنری کی تعریف میں ان کی شاعری کے اقتباسات ہیں:
شامِ دین لے کے آئے بہار احمدِ جاجنری
فیض سے میری بگڑی سنوار احمدِ جاجنری
بہار میں دین کا نور لائے احمد جاجنری
اپنے فیض سے میری خرابی سنوارو احمد جاجنری
آپ رب کے ولی، دین کا ایک روشن چراغ
کیوں نہ ہو آپ سے ہم کو پیار احمدِ جاجنری
آپ خدا کے دوست، دین کا روشن چراغ
ہم کیوں نہ آپ سے محبت کریں احمد جاجنری
کوئی کیا دے مثال آپ کی، اہلِ فضل و کمال
آپ کی آل میں ہیں ہزار، احمدِ جاجنری
آپ کی مثال کون دے، فضیلت اور کمال کے مالک
آپ کی نسل میں ہیں ہزاروں، احمد جاجنری
کتاب کا دل بہار کے ممتاز صوفی بزرگوں کی تفصیلی سوانح حیات میں مضمر ہے، جن میں حضرت مومن عارف، حضرت قاضی سید شہاب الدین سہروردی، حضرت امام تاج فقیہ، حضرت مخدوم آدم صوفی، حضرت کمال الدین یحییٰ منیری، مخدومہ بی بی کمال، مخدوم شیخ زکی الدین، اور حضرت مظفر بلخی شامل ہیں۔
اس کتاب میں مصنف نے صوفیائے کرام کے شجرہ نسب کی باریک بینی سے تحقیق کرکے ایک غیر معمولی کام انجام دیا ہے۔ جہاں اس طرح کے کاموں میں زیادہ تر مصنفین صرف یہ بتاتے ہیں کہ کوئی شخصیت کسی مخصوص نسب سے تعلق رکھتے ہیں، یہاں مصنف نے اس سے آگے بڑھ کر کام کیا ہے۔ انتہائی معتبر ذرائع پر بھروسہ کرتے ہوئے، انہوں نے ان معزز صوفی شخصیات کے نسب کو منظم طریقے سے دستاویزی شکل دی ہے۔ یہ علمی سختی نہ صرف کتاب کی قدر کو بڑھاتی ہے بلکہ اسے اضافی اعتبار اور گہرائی بھی دیتی ہے، جو اس کام کو واقعی متاثر کن بناتی ہے۔
کتاب کا اختتام بہار کے درگاہوں کی اصلی تصاویر کے ساتھ ہوتا ہے، جو قارئین کو ان مقدس مقامات کی بصری زیارت کا موقع فراہم کرتی ہیں اور کام میں جمالیاتی فراوانی کا اضافہ کرتی ہے۔
کتاب کو کئی قابل ذکر شخصیات کی توثیق حاصل ہے، جن میں غلام رسول بلیاوی (سابق راجیہ سبھا ایم پی اور بہار کے ایم ایل سی، جو ادارہ شرعیہ کے سربراہ بھی ہیں)، ڈاکٹر صابر رضا رہبر مصباحی (روزنامہ انقلاب کے سینئر سب ایڈیٹر)، ڈاکٹر مولانا شاہد رضا خان (بہار حکومت کے ڈپٹی میونسپل کمشنر)، اور ڈاکٹر شجاعت علی قادری (مسلم اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آف انڈیا کے چیئرمین) شامل ہیں۔
یہ کتاب ہر اس شخص کے لیے پڑھنا ضروری ہے جو صوفی حکمت کی قدر کرتا ہو، روحانی بزرگوں کا احترام کرتا ہو، بہار سے محبت کرتا ہو، ہندوستان کی مخلوط ثقافت کی قدر کرتا ہو، شاعری سے لطف اندوز ہوتا ہو، یا بین المذاہب ہم آہنگی پر یقین رکھتا ہو۔ چاہے آپ جوان ہوں، بوڑھے، مرد ہوں یا عورت، قارئین کو گہرا علم اور نئے نقطہ نظر حاصل ہوں گے۔ میں پراعتماد طور پر کہتا ہوں کہ یہ کتاب آپ کے فہم کو نمایاں طور پر بہتر کرے گی۔
اس کتاب کو پڑھ کر مجھے بے پناہ خوشی ہوئی۔ مصنف نہ صرف حقائق کو وضاحت کے ساتھ پیش کرتا ہے بلکہ شاعری اور منظر نگاری کے ذریعے ان میں جان ڈالتا ہے۔ اگر آپ بہار، تصوف یا تاریخ میں دلچسپی رکھتے ہیں تو یہ کتاب آپ کی لائبریری میں جگہ کی مستحق ہے۔