فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون نے اعلان کیا کہ فرانس باضابطہ طور پر فلسطین کو ایک ریاست کے طور پر تسلیم کرے گا۔ عالمی سطح پر 140 سے زیادہ ممالک میں شمولیت اختیار کرے گا اور ایسا کرنے والا سب سے طاقتور مغربی ملک بن جائے گا۔ میکرون کا یہ اعلان غزہ میں بڑھتی ہوئی انسانی تشویش اور اسرائیل کی جاری فوجی مہم پر بڑھتے ہوئے بین الاقوامی مایوسی کے درمیان سامنے آیا ہے۔ میکرون نے ایکس پر کہا کہ فرانس مشرق وسطیٰ میں منصفانہ اور دیرپا امن کے لیے اپنے تاریخی عزم کے مطابق ریاست فلسطین کو تسلیم کرے گا۔ انہوں نے کہا کہ اس کا باقاعدہ اعلان ستمبر میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے پہلے کیا جائے گا۔ غزہ میں جنگ کے خاتمے کی فوری ضرورت پر زور دیتے ہوئے میکرون نے فوری جنگ بندی، تمام یرغمالیوں کی رہائی اور بڑے پیمانے پر انسانی امداد کا مطالبہ کیا۔
فرانس کے فیصلے پر حماس نے کیا کہا؟
غزہ کی تنظیم حماس نے فرانس کے اس اعلان کو سراہا ہے ۔ حماس نے اسے "مظلوم فلسطینی عوام کے لیے انصاف کی جانب ایک مثبت قدم" قرار دیا ہے اور دوسرے ممالک سے بھی اسی راستے پر چلنے کی اپیل کی ہے۔ اس کے ساتھ ہی سفارت کاروں نے اسرائیل کو بڑی وارننگ دی ہے۔حماس نے اپنے سرکاری بیان میں کہا کہ ہم اس قدم کو درست سمت میں ایک مثبت قدم سمجھتے ہیں جو ہمارے مظلوم فلسطینی عوام کے لیے انصاف اور ان کے جائز حق خودارادیت کی حمایت کرتا ہے۔ نیز تنظیم نے تمام ممالک بالخصوص یورپی ممالک اور ان ممالک سے اپیل کی ہے جنہوں نے ابھی تک فلسطین کو تسلیم نہیں کیا ہے، فرانس کی پیروی کریں۔
سفارت کاروں کی جانب سے بڑی وارننگ:
دریں اثناء 30 سے زائد سابق برطانوی سفیروں اور اقوام متحدہ کے 20 سے زائد سابق سینئر سفارت کاروں نے برطانوی وزیراعظم کیئر سٹارمر سے فلسطینی ریاست کو بغیر کسی شرط کے تسلیم کرنے کی اپیل کی ہے۔ان سفارت کاروں نے ایک مشترکہ بیان میں کہا کہ یہ ایک تاریخی لمحہ ہے جس میں فلسطین کو ایک آزاد ملک کے طور پر تسلیم کیا جانا چاہیے۔ اگر ایسا نہیں کیا گیا تو اس کے سنگین، تاریخی اور تباہ کن نتائج نکل سکتے ہیں۔
اسرائیل ظلم سے نہیں آرہا باز؟
غزہ کی پٹی میں تقریباً 20 لاکھ افراد کو غذائی قلت کا سامنا ہے، جہاں اسرائیلی حملوں اور انسانی امداد کی راہ میں حائل رکاوٹوں کی وجہ سے حالات مسلسل خراب ہو رہے ہیں۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ اسرائیل اس وقت تک محفوظ نہیں رہ سکتا جب تک مسئلہ فلسطین کا سیاسی حل تلاش نہیں کیا جاتا۔سفارت کاروں نے برطانوی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ محض بیانات جاری کرنے کے بجائے ٹھوس اقدامات کرے۔ ان کا کہنا ہے کہ موجودہ ماحول میں صرف الفاظ ہی کافی نہیں ہیں۔ برطانیہ اسرائیل پر ہتھیاروں کی فروخت پر جزوی پابندی، تجارتی مذاکرات میں تاخیر اور محدود پابندیوں سے کہیں زیادہ دباؤ ڈال سکتا ہے۔