غزہ :فلسطینی حمایتی تنظیم حماس نے غزہ جنگ بندی معاہدے کے تحت غیر مسلح ہونے پر رضامندی ظاہر کر دی ہے۔لیکن ساتھ ہی حماس نے غیر مسلح ہونے کیلیے ایک شرط بھی رکھی ہے۔حماس کے چیف مذاکرات کار اور غزہ کے سربراہ خلیل الحیہ نے کہا کہ غزہ پٹی میں اپنے ہتھیار ایک ایسی فلسطینی اتھارٹی کے حوالے کرنے کیلیے ہم تیار ہیں جو اس علاقے کی حکمرانی کرے، لیکن شرط یہ ہے کہ اسرائیلی فوج کا علاقے سے قبضہ ختم ہو۔ اگر قبضہ ختم ہو جائے تو یہ ہتھیار ریاست کے اختیار میں دے دیے جائیں گے۔
خلیل الحیہ نے یہ بھی کہا کہ ہم اقوام متحدہ کی فورسز کی تعیناتی قبول کرتے ہیں جو ایک علیحدگی فورس کے طور پر سرحدوں کی نگرانی کرے اور غزہ میں جنگ بندی پر عمل درآمد کو یقینی بنائے۔
بتا دیں کہ حماس کے سربراہ خلیل الحیا نے ہفتہ کو غیر مسلح ہونے کی بات کرتے ہوئے کہا کہ اگر اسرائیل اپنا قبضہ ختم کرتا ہے تو حماس اپنے ہتھیار پھینک دے گی۔ انہوں نے کہا کہ حماس کے ہتھیاروں کا تعلق اسرائیل کے قبضے اور موجودگی سے ہے اور اگر اسرائیل اپنا قبضہ ختم کرتا ہے تو حماس غیر مسلح ہو جائے گی۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ غزہ میں ہلاک ہونے والے اسرائیلی یرغمالیوں کی لاشوں کی تلاش جاری ہے اور حماس اتوار (7 دسمبر) کو ان کی تلاش کے لیے ایک نئے علاقے میں داخل ہوگی۔
جنگ بندی کے بعد بھی اسرائیل نہیں آ رہا بعض:
غزہ میں حماس کے سربراہ خلیل الحیا نے اسرائیل پر انسانی امداد روکنے کا بھی الزام لگایا۔انہوں نے کہا کہ جنگ بندی کے بعد بھی اسرائیل بعض اشیا ءکو ایسے روک رہا ہے جیسے ابھی جنگ جاری ہے۔ انہوں نے اسرائیل کے اقدامات پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے عالمی برادری سے اس معاملے پر توجہ دینے کی اپیل کی۔
بتا تے چلیں کہ حماس پہلے غیر مسلح ہونے پر آمادہ نہیں تھا،انہوں نے ایسی کئی تجاویز کو مسترد کر دیا تھا۔ تاہم حماس نے ہتھیار ڈالنے پر رضامندی ظاہر کی لیکن اسرائیلی قبضے کو ہٹانے کی شرط پر۔
قابل ذکر ہے کہ اسرائیل فلسطینی سرزمین پر قبضہ کرکے ایک ملک کے طور پر قائم ہوا تھا۔ کئی فلسطینی مسلح گروہ اس قبضے کے خلاف مسلح جدوجہد کر رہے ہیں۔ اسرائیل نے اس مسلح جدوجہد کو دہشت گردی سے تعبیر کیا ہے اور اسی بہانے وہ روزانہ کی بنیاد پر فلسطینی علاقوں پر وحشیانہ حملے کرتا ہے۔