Sunday, June 15, 2025 | 19, 1446 ذو الحجة
  • News
  • »
  • علاقائی
  • »
  • حیدرآباد میں مچھلی پرساد كی تقسیم كا اختتام ۔رواں سال59,231 مچھلیاں ہوئیں فروخت

حیدرآباد میں مچھلی پرساد كی تقسیم كا اختتام ۔رواں سال59,231 مچھلیاں ہوئیں فروخت

Reported By: Munsif TV | Edited By: Mohammed Imran Hussain | Last Updated: Jun 09, 2025 IST     

image
حیدرآباد میں مرگ کے موقع پرباتھنی خاندان کی طرف سے منعقدہ مچھلی پرساد کی تقسیم ختم ہو گئی ہے۔  مچھلی پرساد  کی تقسیم کا آغاز اتوار کی صبح ریاستی  وزیر پوننم پربھاکر نے حیدرآباد کے نامپلی نمائشی میدان میں کیا  تھا۔جس کی قیادت باتھنی خاندان کے افراد نے کی تھی۔ باتھنی خاندان کے افراد اور رضاکاروں نے جملہ  35 کاؤنٹرز کے ذریعے  مچھلی پرساد تقسیم کیا۔

 دمہ كے مریضوں كومچھلی پرساد كی تقسیم 

مچھلی پرساد کی تقسیم، جو اتوار کی صبح 9 بجے شروع ہوئی، پیر کی سہ پہر 3 بجے تک جاری رہی۔ چونکہ مختلف مقامات سے لوگ مچھلی پرساد کے لیے صبح سے دوپہر تک نامپلی نمائش گراؤنڈ پہنچ رہے تھے، اس لیے مچھلی پرساد كے تقسیم كے پروگرام جو 24 گھنٹے ہونا تھا، پیر کو سہ پہر 3 بجے تک بڑھا دیا گیا۔ محکمہ ماہگیر کے ڈپٹی ڈائریکٹر سرینواس اور سجتا نے بتایا کہ مچھلی پرسادکے اختتام تک 59,231  مچھلیاں  فروخت ہو چکی ہیں ۔ باتھنی ہری ناتھ کی بیٹی ہریتھانند نے کہا کہ اس کے علاوہ، باتھنی خاندان کے ارکان نے خصوصی طور پر 10 ہزار سے زیادہ سبزی خوروں میں گڑ تقسیم کیا۔ مچھلی پرساد کے اختتام کے 30 گھنٹوں کے اندر مجموعی طور پر 70 ہزار لوگوں نے مچھلی کا پرساد حاصل کیا۔

 ملك اور بیرون ممالك سےعقیدت مند حاضر

ملک کی مختلف ریاستوں کے ساتھ ساتھ نیپال اور امریکہ سے دمہ کے بہت سے مریض مچھلی پرساد کے لیے نامپلی نمائش گراؤنڈ پہنچے اور  ان کا استقبال کیا گیا۔ باتھنی  فیملی نے بتایا کہ مچھلی پرسادان ان كی رہاءش گاہ پر بھی تقسیم كیا جاتا ہے جو  لوگ نامپلی نمائش گراؤنڈ میں دوسرے دن بھی مچھلی پرساد نہیں ملا ۔

170سالوں سے تقسیم كیا جا رہا ہے پرساد

  نامبلی كے علاوہ دودھ باولی، کاواڑی گوڑا، ونستھلی پورم اور دیگر علاقوں میں۔ 42  کاؤنٹرز اور وسیع پولیس سیکورٹی کے ساتھ، باتھنی گوڑ فیملی مفت مچھلی پرساد تقسیم كرتی ہے۔مانسون کے آغاز کے موقع پر 'مرگ  كے موقع پر  مچھلی پرساد تقسیم  كرنے كی روایت 179 سالوں سے چلی آ رہی ہے۔ اس کے فایدے کے بارے میں جاری بحثوں کے باوجود ، ہزاروں  لوگ معجزاتی علاج کی امید میں دور ، دراز سے سفر کرتے ہیں۔