• News
  • »
  • قومی
  • »
  • آسام گولا گھاٹ میں غیر انسانی بے دخلی مہم 1500 سے زیادہ مسلم خاندانوں کو بے گھر

آسام گولا گھاٹ میں غیر انسانی بے دخلی مہم 1500 سے زیادہ مسلم خاندانوں کو بے گھر

Reported By: Munsif News Bureau | Edited By: Mohammed Imran Hussain | Last Updated: Jul 29, 2025 IST     

image
آسام کے ضلع گولاگھاٹ کے اُریام گھاٹ علاقے میں منگل کے روز ایک بڑی اور ہنگامہ خیز بے دخلی مہم کا آغاز کیا گیا۔اس دوران   تقریباً 11,000 بیگھہ زمین کو خالی کروایا گیا۔ جس میں کم از کم 1500 مسلم خاندان متاثر ہوئے ہیں۔ حکومتِ آسام کے مطابق یہ زمینیں جنگلات کی حدود میں آتی ہیں جن پر ’غیر قانونی طور پر قبضہ‘ کیا گیا تھا۔
مقامی لوگوں کا دعویٰ
 
تاہم مقامی لوگوں کا دعویٰ ہے کہ جن گھروں کو مسمار کیا گیا ہےاور کیا جارہا ہے ، وہ سرکاری اسکیموں کے تحت منظور شدہ تھے، اور برسوں سے قانونی و بنیادی سہولیات سے آراستہ تھے۔ حکام کے مطابق جن زمینوں سے لوگوں کو بے دخل کیا جارہا ہے وہ ریزرو فاریسٹ (محفوظ جنگلات) کے دائرے میں آتی ہیں، جن پر غیرقانونی قبضہ کیا گیا تھا۔ حکام نے مزید کہا کہ انہدامی کارروائی صرف ان خاندانوں کے خلاف کی جا رہی ہے جنہیں نوٹس دیے گئے تھے۔ ان کے مطابق تقریباً 2,000 خاندان اس علاقے میں رہ رہے تھے، جن میں سے 1,500 کو نوٹس بھیجے گئے۔ باقی افراد کے پاس فاریسٹ رائٹس کمیٹی  کے سرٹیفکیٹ ہیں۔
 
گھروں کے ساتھ جینے بسنے کے خواب بھی ملبے میں دفن
 
صبح سویرے جب لوگ روزمرہ کے معمولات میں مصروف تھے، اچانک بھاری پولیس نفری، فاریسٹ گارڈس اور درجنوں بھاری مشینیں علاقے میں داخل ہوئیں۔ ۔چند گھنٹوں میں 11,000 بیگھا زمین کو "صاف" کر دیا گیا، اور سینکڑوں گھر، مساجد، مدارس، بازار اور حتیٰ کہ سرکاری اسکولوں کو بھی ملبے میں تبدیل کر دیا گیا۔ ان میں سے بیشتر مکانات پر "پردھان منتری آواس یوجنا-گرامین" (PMAY-G)، "جل جیون مشن" (JJM) اور "سرواشکشا ابھیان" (SSA) کے بورڈ نصب تھے۔فاریسٹ ڈپارٹمنٹ کے ایک سینئر افسر نے مؤخر انگریزی روزنامہ کو بتایا کہ سہولیات واقعی حکومت کی طرف سے فراہم کی گئی تھیں، کچھ سہولیات تو سال 2016 میں ریاست ( آسام ) میں بی جے پی اقتدار میں آنے کے بعد بھی  فراہم کی گئیں ۔
 
"ہمیں یہاں لایا گیا، اب بے دخل کیا جا رہا ہے"
 
متاثرہ خاندانوں نے بتایا کہ اُنہیں سن 1980 کی دہائی میں اُس وقت کی حکومتوں نے یہاں آباد کیا تھا تاکہ ناگالینڈ کی جانب سے سرحدی تجاوزات کو روکا جا سکے۔ ایک متاثرہ شخص علی قاضی، جن کا گھر بھی مسمار کیا گیا، نے کہا:“میرے والد  ناگون ضلع سے 40 سال پہلے یہاں لائے گئے۔ ہم نے یہاں جنگل بچانے کے لیے زندگی گزاری، اور آج ہمیں  ہی بے دخل کیا جا رہا ہے۔ اب ہمارے پاس نہ پینے کا پانی ہے، نہ کھانے کو راشن، بس ٹینٹ ہیں اور آنسو۔یہ غیرانسانی سلوک ہے۔”
 
مگر سوال اپنی جگہ باقی ہیں
 
ممتاز علی، ایک اور متاثرہ شخص، سوال کرتے ہیں کہ "اگر ہم غیر قانونی تھے تو ہمیں بجلی، پانی، اسکول اور آواس یوجنا کے مکانات کیسے ملے؟ ”محکمہ جنگلات کے ایک اعلیٰ افسر نے اس بات کو تسلیم کیا کہ علاقہ میں کئی اسکیمیں 2016 کے بعد بھی منظور کی گئیں، جب بی جے پی نے پہلی بار آسام میں اقتدار سنبھالا تھا۔
متاثرین کی اکثریت بنگالی نژاد مسلمانوں پر مشتمل ہے ، جب کہ محکمہ جنگلات کے مطابق جنہیں فاریسٹ رائیت سرٹیفکیٹ ملے ہیں وہ بوڈو، نیپالی اور منی پوری برادریوں سے تعلق رکھتے ہیں۔۔جولائی ماہ کے آغاز میں بھی آسام حکومت نے لکھی پور، گوال پارہ، اور ڈھوبری اضلاع میں بڑے پیمانے پر انہدامی کارروائیاں کی تھیں، جن میں ہزاروں مسلمان خاندان بے گھر ہو گئے تھے۔
 
حکومت کا مؤقف: ’غیرقانونی تجاوزات کو ہٹایا جا رہا ہے‘۔آسام کے چیف منسٹر ہیمنت بسوا سرما نے کہا کہ آسام کے عوام غیر قانونی تجاوزات، آبادیاتی تبدیلی اور تشدد کے شکار ہیں۔ ہم اپنی زمین واپس لے رہے ہیں۔”آئی جی پی  (لا اینڈ آرڈر) اکھیلش سنگھ نے میڈیا کو بتایا کہ کسی احتجاج کے بغیر کاروائی مکمل ہوئی۔ جنہیں نوٹس دیے گئے تھے، وہ پہلے ہی علاقہ خالی کر چکے تھے۔انہدامی کارروائی کے لیے 150 سے زائد بلڈوزر ، پولیس اور فاریسٹ پروٹیکشن فورس کے اہلکار تعینات کیے گئے تھے۔۔
 
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس طرح کی کاروائیاں آسام کے مسلمانوں کو نشانہ بنانے اور انہیں شہری حقوق سے محروم کرنے کے طویل مدتی منصوبے کا حصہ ہیں۔ ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ آسام میں نہ صرف انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں ہو رہی ہیں بلکہ ایک مخصوص طبقے کو جانچ بوجھ کر حاشیے پر دھکیلا جا رہا ہے۔۔۔
آسامی مسلمان بدترین دور سے گزر رہے ہیں۔بی جے پی حکومت کی موجودہ انہدامی مہم کی وجہ سے4600 سے زائد گھر پہلے ہی منہدم ہو چکے ہیں۔اور اب ظلم کے اس دائرے کو وسیع کردیا گیا ہے ۔۔
 
خاموشی کی زبان، اور ایک اجنبی سا وطن
 
حیران کن طور پر اپوزیشن جماعتوں نے اس معاملے پر اب تک کوئی واضح موقف اختیار نہیں کیا۔انسانی حقوق کے  کئی کارکنوں نے اس خاموشی کو مجرمانہ قرار دیا ہے۔سوال یہ ہے کہ اگر یہ شہری واقعی "غیر قانونی" تھے، تو ریاستی حکومتیں اب تک انہیں تمام بنیادی سہولیات کیوں فراہم کرتی رہیں؟ اور اگر وہ قانونی تھے، تو ان کا تحفظ کس کی ذمہ داری ہے؟۔