نئی دہلی: جواہر لال نہرو یونیورسٹی (جے این یو) کے لاپتہ طالب علم نجیب احمد کے معاملے میں راؤس ایونیو کورٹ نے مرکزی تفتیشی بیورو (سی بی آئی) کو کیس بند کرنے کی اجازت دے دی ہے۔ عدالت نے سی بی آئی کی کلوزر رپورٹ کو قبول کر لیا ہے۔ سی بی آئی نے یہ رپورٹ سال 2018 میں داخل کی تھی۔اس رپورٹ میں سی بی آئی نے کہا تھا کہ نجیب کی تلاش میں کوئی ٹھوس سراغ نہیں ملا ہے۔
نجیب ہاسٹل سے لاپتہ ہو گیاتھا:
نجیب 15 اکتوبر 2016 کو جے این یو کے ماہی مانڈوی ہاسٹل سے پراسرار طور پر غائب ہو گیا ۔ ایڈیشنل چیف جوڈیشل مجسٹریٹ جیوتی مہیشوری نے پیر کو سی بی آئی کی 'کلوزر رپورٹ' کو قبول کر لیا ہے ۔ تاہم عدالت نے یہ بھی واضح کیا کہ اگر مستقبل میں کیس سے متعلق کوئی نیا ثبوت سامنے آتا ہے تو کیس کو دوبارہ کھولا جا سکتا ہے۔
سی بی آئی نے 2018 میں تفتیش بند کر دی تھی:
سی بی آئی نے اکتوبر 2018 میں ہی اس معاملے کی تحقیقات بند کر دی تھی، کیونکہ ایجنسی کو نجیب کو ڈھونڈنے میں کوئی کامیابی نہیں ملی تھی۔ دہلی ہائی کورٹ سے اجازت ملنے کے بعد ایجنسی نے عدالت میں اپنی 'کلوزر رپورٹ' داخل کی۔
نجیب احمد لاپتہ کیس؟
نجیب احمد کے لا پتہ ہونے سے ایک دن قبل نجیب کی اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد (اے بی وی پی) سے تعلق رکھنے والے کچھ طلباء کے ساتھ مبینہ طور پر جھڑپ ہوئی تھی۔جسکے ایک دن بعد نجیب پر اسرار طور پر ہاسٹل سے لا پتہ ہو گئے ۔یا انہیں کسی سازش کے طور پر لا پتہ کر دیا گیا ؟یا انکے ساتھ کیا ہوا کسی کو نہیں معلوم،ان کی والدہ فاطمہ نفیس کے وکیل نے اس کیس کو ایک سیاسی معاملہ قرار دیا تھا اور الزام لگایا تھا کہ سی بی آئی اپنے مالکان کے دباؤ کے سامنے جھک گئی ہے۔ابتدائی طور پر اس معاملے کی جانچ دہلی پولیس کر رہی تھی لیکن بعد میں اسے سی بی آئی کے حوالے کر دیا گیا۔ اب سی بی آئی کو اس کیس کو بند کرنے کی اجازت ملنے کے بعد، نجیب احمد کی گمشدگی کا معمہ اب بھی حل طلب ہے۔ اور نجیب کی گمشدگی کے حوالے سے کئی سوال اٹھ رہے ہیں؟