• News
  • »
  • جموں وکشمیر
  • »
  • جموں وکشمیرمیں ریزرویشن کامسئلہ: حکومت اور اپوزیشن کےالزام وجوابی الزام کےدرمیان عوامی خدشات

جموں وکشمیرمیں ریزرویشن کامسئلہ: حکومت اور اپوزیشن کےالزام وجوابی الزام کےدرمیان عوامی خدشات

Reported By: Munsif News Bureau | Edited By: Mohammed Imran Hussain | Last Updated: Jun 20, 2025 IST     

image
جموں وکشمیر میں ریزرویشن کا مسئلہ ایک بار پھر عوامی بحث اور سیاسی سرگرمیوں کا مرکز بن گیا ہے۔ حالیہ دنوں میں ریاست کے مختلف علاقوں میں مظاہرے، سیاسی بیان بازی اور سماجی تنظیموں کی جانب سے شدید ردِعمل سامنے آ رہا ہے۔ اس معاملے نے نہ صرف تعلیمی اور ملازمت کے مواقع پر اثر ڈالا ہے بلکہ سماجی ہم آہنگی پر بھی سوال کھڑے کر دیے ہیں۔

پس منظر

ریاست جموں و کشمیر میں ریزرویشن کی پالیسی ماضی میں مخصوص پسماندہ طبقات، درج فہرست ذاتوں (SC)، درج فہرست قبائل (ST)، اور دیگر کمزور طبقات کو تعلیمی اداروں اور سرکاری ملازمتوں میں مخصوص کوٹہ فراہم کرنے کے لیے نافذ کی گئی تھی۔ حال ہی میں حکومت کی جانب سے بعض نئے طبقات کو ریزرویشن کا درجہ دیے جانے اور موجودہ کوٹہ میں رد و بدل کی تجاویز نے تنازع کھڑا کر دیا ہے۔

عوامی خدشات

علاقائی و سماجی تنظیموں کا کہنا ہے کہ حکومت کی نئی پالیسی سے مقامی نوجوانوں کے مواقع متاثر ہو سکتے ہیں۔ بالخصوص گجر، بکروال، پہاڑی، اور دیگر قبائلی طبقات کے درمیان ریزرویشن کی شرح پر تحفظات ظاہر کیے جا رہے ہیں۔ کئی طبقات کا مطالبہ ہے کہ اُن کے سماجی اور معاشی پس منظر کو مدِ نظر رکھتے ہوئے ریزرویشن میں اضافہ کیا جائے، جبکہ کچھ حلقے اس پالیسی کو علاقے میں سیاسی مفاد پر مبنی قرار دے رہے ہیں۔

حکومت کا مؤقف

ریاستی حکومت کا کہنا ہے کہ ریزرویشن پالیسی میں تبدیلی کا مقصد تمام پسماندہ طبقات کو برابر کے مواقع فراہم کرنا اور سماجی انصاف کو یقینی بنانا ہے۔ حکومت کے مطابق، اس پالیسی پر عمل درآمد سے تعلیمی اداروں اور سرکاری ملازمتوں میں معاشرتی توازن قائم ہو گا اور محروم طبقات کو آگے آنے کا موقع ملے گا۔ وزیر اعلیٰ نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ "جموں و کشمیر کے ہر طبقے کی ترقی ہماری ترجیح ہے، اور ریزرویشن پالیسی کو وقت کے تقاضوں کے مطابق ڈھالنا ضروری ہے۔"جموں و کشمیر کے وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے جمعہ کو پی ڈی پی کی صدر محبوبہ مفتی اور پیپلز کانفرنس کے چیئرمین سجاد لون پر شدید تنقید کرتے ہوئے ان پر سرکاری بھرتیوں میں ریزرویشن کے معاملے پر سیاسی منافقت کا الزام لگایا۔عمر نے کہا کہ دونوں لیڈروں کے پاس پہلے اس معاملے کو اٹھانے کا کافی موقع تھا لیکن سیاسی سہولت کے لیے خاموش رہنے کو  ترجیح  دی  ۔سجاد لون کو نشانہ بناتے ہوئے عمر نے کہا، "وہ پانچ سال تک حکومت کے ساتھ جڑے رہے، جب ہمیں سرکاری رہائش گاہوں سے باہر نکالا جا رہا تھا اور ہماری سیکیورٹی کو کم کیا جا رہا تھا، وہ آرام سے ایک سرکاری گھر میں رہے، تب انہوں نے تحفظات کے بارے میں بات کیوں نہیں کی۔

سیاسی ردِعمل

اس معاملے پر سیاسی جماعتوں میں بھی اختلاف رائے دیکھنے کو مل رہا ہے۔ کچھ جماعتوں نے حکومت کے فیصلے کا خیر مقدم کیا ہے، جبکہ اپوزیشن نے اسے عوام کو تقسیم کرنے کی سازش قرار دیا ہے۔ نیشنل کانفرنس اور پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) سمیت کئی جماعتوں نے مطالبہ کیا ہے کہ حکومت اس معاملے پر عوامی مشاورت کرے اور تمام طبقات کی رائے لے کر ہی کوئی حتمی فیصلہ کرے۔ پیپلز کانفرنس کے صدر سجاد غنی لون نے ریزرویشن کے معاملے کو معقول بنانے پر ان کی تنقید کو مسترد کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ عمرعبداللہ پر سخت ,تنقید کی۔ لون نے واضح کیا کہ عمر عبداللہ کے پانچ سال کے دعوے کے برعکس وہ صرف ڈھائی سال اقتدار میں تھے۔  انہوں نے عمرعبداللہ کی ساکھ پر بھی سوال اٹھائے۔ لون نے عمرعبداللہ کی بی جے پی سے مبینہ قربت کے باوجود ماتا ویشنو دیوی میں پوجا کرنے اور پھر حضرت بل میں نماز جمعہ ادا کرنے اور اگلی صف میں بیٹھنے کی منافقت کی نشاندہی کی۔ پی ڈی پی ترجمان شوقیہ قریشی نے کہاکہ  جموں کشمیر حکومت جس طرح ہر معاملے میں  فیل ہو گئی ہے اسی طرح ریزرویشن معاملے میں بھی وہ اپنے کیے گئے وعدے نہیں نبھا سکی ۔شوقیہ قریشی نے سرکار اس معاملے  کوسنجیدگی سے نہیں لے رہی ہے۔
 
جموں و کشمیر میں ریزرویشن کا معاملہ حساس نوعیت اختیار کر چکا ہے۔ جہاں ایک طرف محروم طبقات کو انصاف دلانے کی بات ہو رہی ہے، وہیں دوسری جانب دیگر طبقات میں مواقع کم ہونے کا خدشہ پیدا ہو رہا ہے۔ اس نازک صورت حال میں حکومت کا کردار انتہائی اہم ہے کہ وہ تمام فریقین کو اعتماد میں لے کر ایسی متوازن پالیسی مرتب کرے جو ہر طبقے کے لیے قابل قبول ہو اور ریاست میں سماجی ہم آہنگی برقرار رکھ سکے۔