جموں وکشمیر کے دواسمبلی حلقوں میں حکمراں پارٹی این سی کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ بڈگام نشست کی انتخابی تاریخ میں نیشنل کانفرنس (این سی) کو پہلی مرتبہ شکست ہوئی۔ ساتھ ہی جموں کی نگروٹہ میں بھی بی جےپی نے اپنا قبضہ برقرار رکھا۔ضمنی انتخابات کے نتائج نے جموں کشمیر کے سیاسی میدان میں ہلچل مچا دی ہے۔
ادھر بڈگام نشست پر پی ڈی پی امیدوار آغا سید منتظر مہدی نے21578 ووٹ حاصل کیے جبکہ آغا سید محمد الموسوی کو صرف 1708 ووٹ حاصل ہوئے۔ اس نشست پر تیسرے نمبر جبران ڈار 7152 ووٹ حاصل کئے۔ وہیں کوئی بھی پارٹی یا امیدوار اس نشست پر قابل ذکر کارکردگی کا مظاہرہ نہ کر سکا۔نگروٹہ اسمبلی نشست پر بی جے پی نے جیت برقرار رکھی اور ان کی امیدوار دیویانی رانا نے قریبی حریف ہرش دیو سنگھ کو24ہزارسے زائد ووٹوں سے شکست دی۔
این سی کا بڑا نقصان،بڈگام سے ملی پہلی مرتبہ شکست
اس سے قبل بڈگام نشست پر نیشنل کانفرنس کا کوئی بھی امیدوار انتخابات میں ناکام نہیں ہوا ہے۔ سال 1962میں اس نشست پر پہلی مرتبہ اسمبلی انتخابات منعقد ہوئے جن میں جموں کشمیر نیشنل کانفرنس کے آغا سید علی صفوی نے جیت درج کی تھی۔ بعد ازاں 1976سے گزشتہ برس یعنی 2024تک جب بھی نیشنل کانفرنس نے اپنا امیدوار میدان میں اتارا، ہمیشہ جیت درج کی۔ سال 1972میں پہلی مرتبہ اس نشست پر کانگریس کے امیدوار علی محمد میر نے اس وجہ سے جیت درج کی کیونکہ نیشنل کانفرنس اس سال کے انتخابی عمل سے دور رہی تھی۔
جیت پر پی ڈی پی حلقوں میں جشن
بڈگام سیٹ جیتنےپی ڈی پی حلقوں میں جشن کا ماحول ہے۔ پار ٹی صدر محبوبہ مفتی ووٹروں سے اظہار تشکر کیا ہے۔ پی ڈی پی پر بھروسہ اور یقین رکھنے کےلئے شکریہ ادا کیا ہے۔ ادھر این سی حلقوں میں نتائج سےمایوسی ظاہر ہورہی ہے۔
عمرعبداللہ کی سرکار پر سوالیہ نشان
جموں و کشمیر کے ضمنی انتخابات حکمراں جماعت کےلئے ریفرنڈم تصور کئے جا رہے تھے۔ نتائج کو حکومت کی کارکردگی کا آئینہ بتایا جا رہا ہے۔ جموں کشمیر کے ضمنی انتخابات کو این سی سرکار کی ایک سال کی کارکردگی کے ساتھ جوڑا جا رہا تھا۔ اپوزیشن پارٹیوں کا ماننا ہے کہ ’’لوگ این سی حکومت کے کھوکھلے وعدوں سے تنگ آچکے ہیں۔‘‘
پارٹی میں اختلافات بھی شکست کی وجہ
سال 2024انتخابات میں وزیر اعلیٰ عمرعبداللہ نے جیت درج کی تھی تاہم گاندربل کی سیٹ برقرار رکھنے کے بعد سے یہاں انتخابات ناگزیر بن گئے تھے۔ سیاسی مبصرین کا ماننا ہے کہ وزیر اعلیٰ کا اس سیٹ پر استعفیٰ بھی لوگوں میں این سی کے تئیں ناراضگی کا ایک سبب ہے۔ گیارہ نومبر کو ہوئے انتخابات کے دوران ممبر پارلیمنٹ آغا روح اللہ نے نہ صرف اپنا ووٹ کاسٹ نہیں کیا بلکہ اس سے قبل این سی کی تشہیری مہم سے بھی دور رہے۔ سیاسی تجزیہ نگاروں کا ماننا ہے کہ آغا روح اللہ کے ’وفادار‘ ووٹروں نے این سی کے حق میں ووٹ نہیں ڈالا۔بڈگام ضلع میں شیعہ ووٹرز کافی تعداد ہے اور اس حلقے کی ’آغا‘ خاندان کے افراد نے ہی زیادہ تر نمائندگی کی ہے۔ پی ڈی پی اور این سی نے بھی ’آغا‘ خاندان کے امیدواروں کو میدان میں اتارا۔