اسرائیل غزہ میں ظلم کی انتہاء کو پار کر چکا ہے۔ بے گناہ لوگوں کو مسلسل قتل کر رہا ہے۔اور جو ان مظلوموں کی آواز بننے یا ان پر ہو رہے ظلم و ستم کو دنیا تک لا نے کی کوشش کر رہا ہے ،یہ انہیں بھی نشانہ بنا رہا ہے۔تازہ ترین معاملہ الجزیرہ کے معروف صحافی انس الشریف اور انکے ساتھیوں کا ہے جنہیں اسرائیلی فوج نے یہ کہتے ہوئے شہید کر دیا کہ انس الشریف حماس سے وابستہ تھے۔انس الشریف وہ صحافی تھے جنہوں نے شمالی غزہ میں اسرائیلی بمباری، انسانی بحران اور جنگی جرائم کی وسیع کوریج کی تھی، جس کے بعد سے انہیں مسلسل دھمکیاں مل رہی تھیں۔
اسرائیلی فوج کی جانب سے انس الشریف کی منصوبہ بند شہادت کے بعد انس کا وہ آخری پیغام جو انہوں نے اپنی شہادت سے قبل لکھا تھا ،جسے پڑھنے کے بعد یہ واضح ہے کہ انس کو یہ اندیشہ ہوچکا تھا کہ انہیں نشانہ بنایا جا رہا ہے ۔اور جلد شہادت کا جام نصیب ہونے والا ہے۔انس الشریف کی ٹیم نے سوشل میڈیا پر ان کے آخری الفاظ شائع کیے جس میں لکھا ہے۔
انس الشریف کا آخری پیغام،امت مسلمہ کے نام
یہ میری وصیت اور میرا آخری پیغام ہے۔ اگر یہ الفاظ آپ تک پہنچ جائیں تو جان لیں کہ اسرائیل مجھے قتل کرنے اور میری آواز کو خاموش کرنے میں کامیاب ہو گیا ہے۔ سب سے پہلے آپ پر سلامتی ہو اور اللہ کی رحمتیں اور برکتیں ہوں۔
اللہ جانتا ہے کہ جب سے میں نے جبالیہ کے پناہ گزین کیمپ کی گلیوں میں آنکھ کھولی،تب سے میں نے اپنی تمام ترکوششیں ان چیزوں میں کی کہ میں اپنے لوگوں کا سہارا بنوں، ان کی آواز بنوں، مجھے امید تھی کہ اللہ مجھے اتنی مہلت دے گا کہ میں اپنے خانہ اور پیاروں کے ساتھ اپنے آبائی شہر مقبوضہ عسقلان (المجدل) واپس لوٹ سکوں، مگر اللہ کی مرضی مقدم ہے، اور اس کا فیصلہ حتمی ہے۔
میں نے دکھ ،درد اور تکلیف کی تمام شکلوں کے ساتھ زندگی گزاری ہے، کئی بار مصائب اور نقصان کا مزہ چکھا ہے، لیکن کبھی سچ بولنے میں ہچکچاہٹ یا خوف محسوس نہیں کیا،اور نہ ہی سچائی کو بدلا اور نہ چھپایا،تاکہ اللہ ان لوگوں کے خلاف گواہ بنے جو خاموش رہے۔جنہوں نے ہمارے قتل کو قبول کیا، اور ہمیں ہماری حال پر چھوڑ دیا، جن کے دل ہماری عورتوں اور بچوں کی کٹی پھٹی لاشیں دیکھ کر بھی نہ پگھلے، اور جنہوں نے اس قتلِ عام کو روکنے کے لیے کچھ نہ کیا جو ہماری قوم ڈیڑھ سال سے جھیل رہی ہے۔
میں آپ کو فلسطین کے حوالے کرتا ہوں جو کہ مسلم دنیا کے تاج کا نگینہ ہے، اس دنیا کے ہر آزاد انسان کے دل کی دھڑکن ہے۔ میں آپ کو انکے سپرد کرتا ہوں،ان مظلوم اور معصوم بچوں کے حوالے کرتا ہوں جن کے پاس کبھی خواب دیکھنے یا سلامتی اور سکون سے رہنے کا وقت نہیں تھا۔ ان کے پاکیزہ جسم ہزاروں ٹن اسرائیلی بموں اور میزائلوں کے نیچے کچلے گئے، ٹکڑے ٹکڑے ہو کر دیواروں پر بکھر گئے۔
میں آپ سے گزارش کرتا ہوں کہ زنجیروں کواپنی آواز بند کرنے نہ دیں ،سرحدوں کو اپنی راہ میں رکاوٹ بننے نہ دیں ،آپ اس سرزمین اور اس کے لوگوں کی آزادی کے لیے پل بنیں، جب تک کہ ہمارے لوٹے ہوئے وطن پر وقار اور آزادی کا سورج طلوع نہ ہو جائے۔ میں آپ کو اپنے خاندان کی دیکھ بھال کرنے کے لئے سپرد کرتا ہوں۔ میں آپ کو اپنی پیاری بیٹی شام کے سپرد کرتا ہوں، جو میری آنکھوں کی روشنی ہے، جسے میں نے خواب کے مطابق بڑا ہوتے دیکھنے کا موقع نہیں دیا۔
میں آپ کو اپنے پیارے بیٹے صلاح کے سپرد کرتا ہوں، جس کی میں زندگی بھر اس وقت تک ساتھ دینا چاہتا تھا جب تک کہ وہ اتنا مضبوط نہ ہو جائے کہ وہ میرا بوجھ اٹھا سکے اور مشن کو جاری رکھ سکے۔میں آپ کو اپنی پیاری ماں کے سپرد کرتا ہوں، جن کی دعاؤں نے مجھے اس مقام تک پہنچایا، جنکی دعائیں میرا قلعہ تھیں اور جنکی روشنی نے میری راہنمائی کی۔ میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ انہیں صبردے اور اسے میری طرف سے بہترین انعامات سے نوازے۔
میں آپ کو اپنی عمر بھر کی ساتھی، اپنی پیاری بیوی ام صلاح کے سپرد کرتا ہوں، جن سے جنگ نے مجھے کئی دنوں اور مہینوں تک جدا کیا۔ اس کے باوجود وہ زیتون کے درخت کے تنے کی طرح مضبوطی سے ثابت قدم رہی ،صبر کرنے والی، اللہ پر بھروسہ کرنے والی، اور اپنی پوری طاقت اور ایمان کے ساتھ میری غیر موجودگی میں ذمہ داری نبھانے والی۔
میں آپ سے گزارش کرتا ہوں کہ، آپ ان کے ساتھ کھڑے رہیں، اللہ تعالی کے بعد ان کا سہارا بنیں۔ اگر میں مروں گا تو اپنے اصولوں پر ثابت قدم رہوں گا۔ میں اللہ کے حضور گواہی دیتا ہوں کہ میں اس کے فرمان پر راضی ہوں، اس سے ملنے کا یقین رکھتا ہوں، اور یقین دلاتا ہوں کہ جو کچھ اللہ کے پاس ہے وہ بہتر اور ہمیشہ رہنے والا ہے۔
اے اللہ مجھے شہداء میں قبول فرما، میرے پچھلے گناہوں کو معاف فرما اور میرے خون کو ایسا نور بنا جو میری قوم اور میرے اہل و عیال کے لیے آزادی کی راہ روشن کرے۔ اگر مجھ سے کوئی کوتاہی ہوئی ہو تو مجھے معاف کر دینا، اور میرے لیے دعا کرنا، کیونکہ میں نے اپنا وعدہ پورا کیا اور کبھی اس میں کوئی تبدیلی یا خیانت نہیں کی۔
غزہ کو مت بھولنا… اور مجھے بھی اپنی دعاؤں میں یاد رکھنا۔ بخشش اور قبولیت کے لیے۔
انس جمال الشریف
یہ وہی تحریر ہے جسے انس الشریف نے اپنی شہادت پر شائع کرنے کی درخواست کی تھی۔