ملک کی بڑی مسلم تنظیموں، مذہبی رہنماؤں اور سول سوسائٹی کے نمائندہ افراد نے فلسطین کے بحران پر ایک مشترکہ بیان جاری کیا ہے، جس میں بھارتی حکومت اورعالمی طاقتوں سے اپیل کی گئی ہے کہ وہ غزہ میں جاری ظلم و بربریت کو روکنے کے لیے فوری مداخلت کریں۔
تقریباً دس تنظیموں کے نمائندے جس میں صدرجمیعت العلماء ہند۔ صدر،آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ۔امیر، جماعت اسلامی ہند۔امیر، مرکزی جمیعت اہل حدیث۔امیر شریعت ، امارت شریعہ بہار، اڑیسہ، جھارکھنڈ ، مغربی بنگال۔ ، شاہی امام جامع مسجد ، فتحپوری۔جنرل سیکریٹری آل انڈیا ملی کونسل۔سابق چیئرمین ، دہلی مائنریٹی کمیشن۔صدر، ایس آئی او آف انڈیا۔ معروف شیعہ خطیب و عالم دین، مولانا محسن تقوی، شامل ہیں۔ انھوں نے فلسطین پرمشترکہ اعلامیہ جاری کیا ہے۔
:فلسطین کےبارے میں مشترکہ اعلامیہ
غزہ میں جاری نسل کشی فوری روکیں:
ہم، بھارت کی مسلم تنظیموں کے رہنما، مذہبی علماء اور ملک کے امن پسند شہری، غزہ میں جاری نسل کشی اور انسانیت سوز بحران کی شدید مذمت کرتے ہیں۔ ہم 20 کروڑ سے زائد بھارتی مسلمانوں اور وطن عزیز کے تمام امن پسند شہریوں کی جانب سے فلسطینی عوام کے ساتھ غیر متزلزل یکجہتی کا اظہار کرتے ہیں۔ ہم حکومتِ ہند، عالمی رہنماؤں، اور دنیا بھر کے باضمیرانسانوں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ اس ظلم کے خلاف آواز بلند کریں اور اسرائیلی جارحیت کو روکنے کے لیے فوری اقدامات کریں۔
:غزہ میں مکمل طور پر قحط سالی کا خطرہ
فلسطینی عوام پر جاری جارحانہ اسرائیلی حملے منظم نسل کشی کی صورت اختیار کر چکے ہیں، ان حملوں میں گھروں، اسپتالوں، اسکولوں اور پناہ گزیں کیمپوں کو نشانہ بنایاجا رہا ہے۔ اکتوبر 2023 سے اب تک تقریباً ایک لاکھ معصوم فلسطینی شہید ہو چکے ہیں، جن میں بڑی تعداد خواتین اور بچوں کی ہے۔ اطلاعات کے مطابق جارحانہ اسرائیلی بمباری کے سبب غزہ کے 90 فیصد طبی مراکز یا تو پوری طرح تباہ ہو چکے ہیں یا ناکارہ ہو چکے ہیں، اس وقت پورے غزہ میں گنتی کے چند غذائی مراکز بچے ہیں جو بیس لاکھ سے زائد افراد کی ضرورتوں کی تکمیل کی ناکام کوشش کر رہے ہیں۔ 17,000 سے زائد بچے یتیم ہو چکے، جبکہ اس جنگ نے پانچ لاکھ سے زائد بچوں کو تعلیم سے محروم کر دیا ہے۔ ایک جانب غزہ میں اتنی سنگین بحرانی کیفیت ہے اور دوسری جانب ہزاروں ٹن خوراک اور طبی امداد سرحدوں پر روک دی گئی ہے، پانی و صفائی کے نظام کی تباہی کے سبب غزہ میں مہلک بیماریاں پھیل رہی ہیں ۔ اگر فوری طور پر ناکہ بندی ختم نہ کی گئی تو غزہ میں مکمل طور پر قحط سالی کا خطرہ ہے۔
:عالمی برادری کی خاموشی نا قابل قبول
ایسی صورت میں عالمی برادری کی خاموشی نا قابل قبول ہے۔ ہم عالمی طاقتوں اور تمام ممالک سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اسرائیل کے ساتھ عسکری و اقتصادی تعلقات منقطع کریں اور اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اسرائیل کے غیر قانونی قبضے کے خاتمہ کے مطالبے کی حمایت کریں۔ ہم تمام مسلم ممالک سے بھی پرزور اپیل کرتے ہیں کہ وہ اسرائیل اور امریکہ پر دباؤ بنائیں تاکہ غزہ میں جاری نسل کشی کو روکا جا سکے۔
:غزہ کےمظلومین کی حکومت ہند کرےمدد
تاریخی اعتبار سے ہماراملک ہمیشہ مظلوموں کے ساتھ کھڑا رہا ہے؛ یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم پوری قوت سے اس تاریخی روایت کی پاسداری کریں۔ ہم اپنی حکومتِ سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ ملک کی اخلاقی اور سفارتی روایت کا احترام کرے، کھل کر اسرائیل کی سفاکانہ کارروائیوں کی مذمت کرے، اس کے ساتھ عسکری اور اسٹریٹجک تعلقات کو معطل کرے۔ فلسطینی عوام کی جائز جدوجہد میں ان کا ساتھ دے اور عالمی سطح پر خطہ میں امن و استحکام کی کوششوں میں بھرپور حصہ لے۔ ہم اپنی حکومت سے یہ بھی مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ انسانی بنیادوں پر غزہ کے مظلومین کے لیے فوری امداد کا انتظام کرے اور غزہ میں خوراک، پانی، ایندھن اور طبی سامان کی ترسیل کے لیے کی جارہی سفارتی کوششوں میں بھرپور حصہ لے۔
:اسرائیلی مصنوعات کا کریں بائیکاٹ
ہم عام شہریوں اور اداروں سے بھی اپیل کرتے ہیں کہ وہ اسرائیلی مصنوعات اور ان کمپنیوں کا بائیکاٹ کریں جو کسی بھی طریقے سے اس نسل کشی میں شریک ہیں۔ سول سوسائٹیز، تعلیمی ادارے اور مذہبی تنظیمیں ملک میں مظلوموں کی آواز بنیں اور فلسطینی جدوجہد کے خلاف پھیلائے جارہے پروپیگنڈے اور جھوٹے بیانیے کو بے نقاب کریں۔ ہم عوام سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ فلسطین کے لیے جاری پُرامن اور قانونی مزاحمت میں پر جوش شرکت کریں ۔ غزہ کے لیے یکجہتی مارچ، بیداری مہمات، علمی مذاکروں، اور بین المذاہب تقاریب کا اہتمام کیا جائے تاکہ یہ پیغام جائے کہ بھارتی ضمیر خاموش نہیں ہے۔ اس بات کو بھی یقینی بنانے کی ضرورت ہے کہ فلسطین کے حق میں آواز بلند کرنے والوں کو ریاستی ہراسانی یا دباؤ کا سامنا نہ کرنا پڑے اور ہر شہری کو اظہارِ رائے کی آزادی حاصل رہے۔
:متحد ہوکر نسل کشی کوروکنے کیلئے آواز اٹھانا چاہئے
یہ بات بے حد اہم ہے کہ اس تنازعہ کے سلسلے میں ہمارا موقف وقتی سیاسی مفادات کے بجائے آئین میں درج اصولوں اور ہماری تہذیبی اور اخلاقی قدروں پر مبنی ہو۔ بے گناہ انسانوں کی نسل کشی کے وقت خاموش یا غیر جانب دار رہنا سفارت کاری نہیں بلکہ اخلاقی دیوالیہ پن کی علامت ہے۔ اب وقت ہے کہ ہم غزہ کے عوام کے ساتھ کھل کر یکجہتی کا عملی مظاہرہ کریں۔ ہمارے اقدامات انصاف کے تقاضوں اور انسانی ہمدردی کی ہماری روایت سے ہم آہنگ ہوں۔ اس سے پہلے کہ بہت دیرہو جائے، ہمیں ایک ہو کر اس نسل کشی کو روکنے کے لیے آواز اٹھانا ہوگی۔