تعلیم کسی بھی معاشرے کی بنیاد ہوتی ہے۔ کسی قوم کی ترقی و تہذیب کی اساس سمجھی جاتی ہے۔ مگر جب یہی تعلیم بچوں کے لیے ذہنی اذیت، جسمانی مشقت اور جذباتی دباؤ کا باعث بننے لگے تو اس کا مقصد فوت ہو جاتا ہے۔تعلیم کا مقصد فہم و شعور کے فروغ کے بجائے محض نمبروں اور امتحانات تک محدود ہو کر رہ گیا ہے۔ تعلیمی نظام کا موجودہ ڈھانچہ بچوں کی فطری نشوونما، اُن کی تخلیقی صلاحیتوں اور ذہنی توازن کے لیے مضر ثابت ہورہا ہے۔ حالیہ دنوں والدین کی جانب سے اسکولی نظامِ تعلیم کے تئیں بڑھتی ہوئی عدم اطمینانی دراصل اسی بحران کی آئینہ دار ہے۔
تعلیمی دباؤ اور بچوں کی نفسیاتی کیفیت
بیشتراسکولوں میں آج بھی رٹنے پر مبنی تدریسی نظام رائج ہے۔حالانکہ رٹنا بُرا نہیں ہے۔ لیکن رٹنے پر گریڈ دینے کا سسٹم بچوں کو حصول تعلیم کے اصل مقصد سے دور کر رہا ہے۔ کم عمر طلباءپر رٹنے، دوڑنے اور امتحانی کامیابی حاصل کرنے کا غیر ضروری دباؤ ڈالا جا رہا ہے۔تو ایسے میں بچوں پر ذہنی دباؤ تو رہتا ہی ہے۔ اُس پر وہ پانچ چھ کلو وزنی بستے اٹھائے بوجھ سہتے رہنے پر مجبور ہیں۔ دن بھر چھ سے آٹھ مضامین پڑھتے ہیں، اور شام کو گھر آکر بھاری بھرکم ہوم ورک پورا کرنے میں ہی اپنا پورا وقت گنوا دیتے ہیں۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ ذہنی دباؤ، کے ساتھ ساتھ تھکن کا شکار ہوجاتے ہیں ۔اور پڑھائی میں اُن کی دلچسپی بھی جاتی رہتی ہے۔
بہترانسان بنانے کےلئے ذہن اور دل کی پرورش
ماہرینِ نفسیات کے مطابق یہ طرزِ تعلیم ؛بچوں کی توجہ،فطری دلچسپی، یادداشت ،تخلیقی قوت اور جذباتی توازن پر منفی اثر ڈالتا ہے۔ کچھ باشعور والدین اور سماج کے حساس لوگ مانتے ہیں کہ تعلیم کا مقصد اگر بچے کو بہتر انسان بنانا ہے تو ہمیں اس کے ذہن اور دل دونوں کی پرورش کرنی ہوگی، اور بچوں کو امتحان دینے والی ایک مشین میں تبدیل کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔
نصاب اور تدریسی ڈھانچے میں اصلاحات کی فوری ضرورت
بہت سے باشعور والدین کا سب سےبنیادی مطالبہ ہےکہ روزانہ پڑھائے جانے والے مضامین کی تعداد کم کر کے تین یا چارکردی جائے تاکہ بچوں کو ہر مضمون پر انہماک کے ساتھ توجہ دینے کا موقع ملے۔ ۔بین الاقوامی سطح پر ہونے والی تحقیق سے بھی یہ حقیقت عیاں ہوچکی ہے کہ کم مضامین میں زیادہ وقت صرف کرنے سے تجسس، تخلیقی و تنقیدی سوچ اور بہتر فہم بچوں میں پروان پاتاہے۔
اسی طرح کتابوں اور بستوں کے وزن کو قابو میں رکھنے کے لیےجو احکامات جاری کیے گیے تھےحکومت کو اُن رہنما خطوط پر مؤثر عمل درآمد کرانا چاہیے۔ کیوں کہ تا حال ایسا نہیں ہوسکا ہے ۔ضرورت اس امر کی ہے کہ اسکولوں میں بچوں کے لیے لاکرز یا اسٹوریج کی سہولت دی جائے ،اور بھاری نوٹ بکس کے بجائے ہلکے ماڈیولز متعارف کرائے جائیں۔
تخلیقی اور جسمانی تعلیم کا فروغ
آج کے اسکولوں میں فنون، موسیقی، کھیل کود، اور ڈرامہ جیسے مضامین کو اکثر غیر اہم سمجھ کر نظرانداز کیا جاتا ہے۔ حالانکہ یہ سرگرمیاں بچوں کی تخلیقی صلاحیت، خوداعتمادی، اور جذباتی استحکام کے لیے ناگزیر ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ فن، کھیل اور موسیقی کو لازمی مضمون قرار دے اور اسکولوں میں ان کے لیے مخصوص اوقات مقرر کرے۔
نظام امتحان میں تبدیلی
موجودہ نظام میں صرف تحریری امتحانات کو اہمیت دی جاتی ہے، جس سے بچوں میں محض یاد کرنے کی صلاحیت بڑھتی ہے، سوچنے اور سمجھنے کی نہیں۔ اس لیے پروجیکٹ ورک، زبانی (اورل )پریزنٹیشنز، گروپ سرگرمیوں اور عملی مظاہروںکو امتحانی عمل کا حصہ بنانا ضروری ہے۔ ایسا کرنے سے بچوں میں تنقیدی سوچ، اور خوداعتمادی پیدا ہوگی،۔اور وہ جو بھی علم حاصل کریں گے وہ عملی کہا جاسکے گا۔
اساتذہ کی تربیت اور سہولتیں
اساتذہ پر بھی اس نظام کا دباؤ کم نہیں۔ انہیں بیک وقت تدریسی، انتظامی اور رپورٹنگ کے فرائض انجام دینا پڑتے ہیں۔ باشعور والدین کا مطالبہ ہے کہ اساتذہ کو بچوں کی نفسیات، تخلیقی تدریس اور سیکھنے کے جامع و جدید طریقوں کی تربیت مستقل دی جاتی رہے۔ حکومت کو چاہیے کہ اساتذہ کو تدریسی خودمختاری دے تاکہ وہ طلبہ کی ضرورت کے مطابق اسباق کی منصوبہ بندی کرسکیں۔
حکومت اور حکام کی ذمہ داری
تلنگانہ حکومت نے نصاب میں کچھ اصلاحات ضرور کی ہیں، ۔مگر ان کا دائرہ محدود ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت بچوں پر مرکوز ایک تعلیمی پالیسی وضع کرے جو ذہنی و جذباتی توازن، تخلیقی سوچ، اور عملی علم پر مبنی ہو۔