سپریم کورٹ نے غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام کے لئے بنائے گئے قانون یعنی یو اے پی اے کی دفعات کو چیلنج کرنے والی عرضیوں پر سماعت کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ اس معاملے کی پہلے ہائی کورٹ میں سماعت ہونی چاہیے۔ ان درخواستوں میں یو اے پی اے کی دفعہ 35 اور 36 کو چیلنج کیا گیا تھا۔اس قانون کے تحت مرکزی حکومت کسی بھی شخص کو دہشت گرد قرار دینے اور دہشت گردوں کی فہرست سے نکالنے کا اختیار رکھتی ہیں۔
سماعت کے دوران چیف جسٹس سنجیو کھنہ، جسٹس سنجے کمار اور جسٹس کے وی وشواناتھن کی بنچ نے دیکھا کے دہلی ہائی کورٹ یو اے پی اے کے انہی حصوں کی چیلنج کی سماعت کر رہی ہے۔ یو اے پی اے سے متعلق عرضیاں کچھ دیگر ہائی کورٹس میں بھی زیر التوا ہیں۔ اس پر بنچ نے پوچھا کہ سپریم کورٹ اس معاملے کی براہ راست سماعت کیوں کرے؟سپریم کورٹ کے ججوں کا خیال تھا کہ ہائی کورٹ کے فیصلے کو پہلے آنے دیا جانا چاہیے۔
Association for Protection of Civil Rights( اسوسی ایشن فار پروٹیکشن آف سول رائٹس) اور سجل اوستھی نے 1967 کے یو اے پی اے ایکٹ میں 2019 میں کی گئی تبدیلیوں کے خلاف سپریم کورٹ میں عرضی داخل کی تھی۔ ان درخواستوں میں کہا گیا کہ یہ تبدیلی حکومت کو یہ حق دیتی ہے کہ وہ من مانی طور پر کسی کو بھی دہشت گرد قرار دے سکے۔ اس کے بعد اس شخص کو قانونی کارروائی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اسے خود کو ثابت کرنا ہو گا کہ وہ دہشت گرد نہیں ہے۔ یہ مساوات، آزادی اور احترام کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔
بار اور بنچ کی رپورٹ کے مطابق، سی جے آئی سنجیو کھنہ نے درخواست گزار کی سماعت نہ کرنے کی وجہ بتاتے ہوئے کہا، 'بعد میں کئی مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ کبھی آپ کی طرف سے اور کبھی دوسرے (مرکز) کی طرف سے کچھ مسائل چھوڑے جاتے ہیں، پھر ہمیں معاملہ بڑے بنچ کے پاس بھیجنا پڑتا ہے۔ پہلے ہائی کورٹ کو اس پر فیصلہ کرنے دیں۔
عرضی گزار کی جانب سے پیش ہوئے سینئر وکیل سی یو سنگھ نے کہا کہ یہ کیس سپریم کورٹ میں پانچ سال سے زیر التوا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ جب سپریم کورٹ پہلے ہی اس طرح کے دیگر معاملات پر فیصلہ دے رہی ہے تو پھر اسے کیوں نہیں سنا جا سکتا۔ اس دلیل پر سی جے آئی سنجیو کھنہ نے پھر کہا کہ پہلے ہائی کورٹ سے فیصلہ آنے دیں۔ اس کے بعد درخواست گزار نے عدالت سے اپیل کی کہ اس کی عرضی کو مسترد نہ کیا جائے بلکہ اسے دہلی ہائی کورٹ منتقل کیا جائے۔