سپریم کورٹ نے پیرکو "طلاق حسن" اور"یکطرفہ ماورائےعدالت طلاق" کی دیگر تمام اقسام کوغیرآئینی قراردینےکی درخواستوں کی حتمی سماعت کے لیے 19۔20 نومبر کی تاریخ مقرر کی۔طلاق حسن مسلمانوں میں طلاق کی ایک شکل ہے جس کے ذریعے مرد تین ماہ کی مدت میں ہر مہینے ایک بار"طلاق" کا لفظ کہہ کرنکاح کوختم کرسکتا ہے۔ عدالت نے قومی کمیشن برائے خواتین، قومی انسانی حقوق کمیشن اور کمیشن برائے تحفظ حقوق اطفال جیسے اداروں سے بھی رائے طلب کی ہے۔ ساتھ ہی سپریم کورٹ نے طلاق حسن سمیت دیگر نظاموں کے متعلق مذہبی مواد کو بھی عدالت میں رکھنے کو کہا ہے۔
سپریم کورٹ میں طلاق حسن کے متعلق داخل عرضیاں 3 سال سے زیرالتوا ہیں۔ یہ عرضیاں بے نظیرحنا اورناظرین نِشا سمیت کئی ایسی خواتین کی ہیں جو یکطرفہ طلاق (طلاقِ حسن) سے ذاتی طور پر متاثر ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ مسلم خواتین کو بھی دیگر مذاہب جیسے حقوق ملنے چاہئیں۔ عرضیوں میں کہا گیا ہے کہ مذہبی آزادی کے نام پرمسلم خواتین کو قانون کی نظر میں مساوات (آرٹیکل 14) اور باعزت زندگی گزارنے (آرٹیکل 21) جیسے بنیادی حقوق سے محروم نہیں رکھا جا سکتا۔
عرضی گزاروں نے مطالبہ کیا ہے کہ سپریم کورٹ طلاقِ حسن اورعدالتی طریقے سے نہ ہونے والے دیگر تمام اقسام کی طلاق کو غیرقانونی قرار دے۔ شریعت ایپلی کیشن ایکٹ 1937 کی دفعہ 2 منسوخ کرنے کا حکم دیا جائے۔ ساتھ ہی مسلم میریج ایکٹ کی تحلیل 1939 بھی مکمل طور سے منسوخ ہو۔سپریم کورٹ نے اس معاملے کی پچھلی سماعت کرتے ہوئے مشاہدہ کیا تھا کہ مسلمانوں کی طرف سے طلاق کے لیے طلاق حسن کا استعمال کرنا بنیادی طور پر غلط نہیں ہے۔ طلاق حسن وہ رواج ہے جس کے تحت ایک مسلمان مرد اپنی بیوی کو ماہ میں ایک بار، تین ماہ تک طلاق کا لفظ کہہ کر طلاق دے سکتا ہے۔
درخواست میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ حنا نے 25 دسمبر2020 کو مسلم رسومات کے مطابق یوسف نقی سے شادی کی تھی اوراس شادی سے ایک لڑکا بچہ پیدا ہوا تھا۔ الزام لگایا گیا ہے کہ حنا کے والدین نے جہیز دینے پر مجبور کیا اور بعد میں بڑا جہیز نہ ملنے پر اسے تشدد کا نشانہ بنایا۔ درخواست میں کہا گیا ہے کہ حنا کے شوہر اور اس کے گھر والوں نے اسے شادی کے بعد ہی نہیں بلکہ دوران حمل بھی جسمانی و ذہنی تشدد کا نشانہ بنایا جس سے وہ شدید بیمار ہوگئیں اور جب حنا کے والد نے جہیز دینے سے انکار کیا تو اس کے شوہر نے وکیل کے ذریعے اسے یکطرفہ ماورائے عدالت طلاق حسن دے دیا۔ حنا نے دلیل دی ہے کہ اس طرح کی طلاق آئین ہند کے آرٹیکل 14، 15، 21، 25 اور اقوام متحدہ کے کنونشن کے خلاف ہے۔
معززعدالت پہلے ہی اس خیال کا اظہار کر چکی ہے کہ تین طلاق مذہب کا اٹوٹ حصہ نہیں ہے اور آرٹیکل 25 صرف مذہبی عقیدے کی حفاظت کرتا ہے، لیکن ایسے عمل نہیں جو امن عامہ، اخلاقیات یا صحت کے خلاف ہو،" درخواست میں مزید کہا گیا ہے۔ درخواست میں مزید کہا گیا ہے کہ "یہ عمل بہت سی خواتین اور ان کے بچوں کی زندگیوں کو بھی تباہ کر دیتا ہے، خاص طور پر وہ لوگ جو معاشرے کے کمزور معاشی طبقات سے تعلق رکھتے ہیں۔" درخواست میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ مسلم میرج ایکٹ 1939 کو منسوخ اور غیر آئینی قرار دیا جائے جو کہ آرٹیکل 14، 15، 21، 25 کی خلاف ورزی ہے کیونکہ یہ مسلم خواتین کو "طلاق حسن اور یکطرفہ ماورائے عدالت قانون کی دیگر شکلوں سے تحفظ فراہم کرنے میں ناکام ہے۔
واضح ر ہے کہ 22 اگست 2017 کو سپریم کورٹ نے ایک ساتھ 3 طلاق بول کر شادی ختم کرنے کوغیرقانونی قرار دیا تھا۔ طلاق بدعت تصور کیے جانے والے اس نظام کے حوالے سے بیشتر علماء کا بھی خیال تھا کہ یہ قرآن کے مطابق نہیں ہے۔ عدالتی فیصلہ کے بعد حکومت نے ایک ساتھ 3 طلاق بولنے کو جرم قرار دیتے ہوئے ایک قانون بھی بنا دیا ہے، لیکن طلاقِ حسن اور طلاقِ احسن جیسے نظام اب بھی برقرار ہیں۔اس سے قبل طلاق کی اس شکل کے آئینی جواز کا فیصلہ کیا گیا تھا۔طلاق حسن کے تحت، تیسرے مہینے میں لفظ طلاق کے تیسرے الفاظ کے بعد طلاق باضابطہ ہوجاتی ہے اگر اس مدت کے دوران میاں بیوی کےدرمیان صحبت دوبار نہ ہوئی ہو۔تاہم، اگرپہلی طلاق یا دوسری طلاق کے بعد صحبت دوبارہ کی تو فرض کیا جاتا ہے کہ فریقین میں صلح ہو گئی ہے۔