تلنگانہ کی 12 یونیورسٹیوں کےمستقبل کو لیکر خطرے کی گھنٹیاں بج رہی ہیں۔ طلبا تنظیموں نے ا لزام لگایا کہ کانگریس اقتدارمیں آنے کے بعد سے 17 مہینوں میں یونیورسٹیوں کے مسائل پر کوئی توجہ نہیں دی ہے۔ یونیورسٹیوں میں عملے کی کمی ہے۔ تدریسی معیارکا فقدان، ریسرچ رک گئی ہے۔ بالآخر یونیورسٹیز کا انتظامیہ افراتفری کا شکار ہو گیا ہے۔ مختلف شعبوں کے ہیڈ آف دی ڈپارٹمنٹ نہیں ہیں۔ کئی اسامیاں خالی ہیں۔ پروفیسرز کی تعداد میں نمایاں کمی آئی ہے۔ آخرکار، یونیورسٹیوں کو مکمل طور پر کنٹریکٹ فیکلٹی پر انحصار کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔
حیرت کی بات ہے کہ متعلقہ یونیورسٹیوں میں تقرریوں کے مواقع ہونے اور کوئی قانونی تنازعہ نہ ہونے کے باوجود حکومت خالی جائیدادوں کو پْر کرنے کے لیے آگے نہیں آئی۔ کانگریس حکومت نے اس سے متعلق فائل کو، روکے رکھا ہے۔ اس تناظر میں ان 12 یونیورسٹیوں کی صورتحال ناگفتہ بہ ہو چکی ہے۔ سینئر پروفیسرز خبردار کر رہے ہیں کہ اگر حالات ایسے ہی رہے تو اگلے دو تین سالوں میں یونیورسٹیوں کو ایسی صورتحال کا سامنا کرنا پڑے گا جس سے وہ سنبھل نہیں سکیں گی۔
ملک کی ممتاز عثمانیہ یونیورسٹی کے ساتھ جے این ٹی یو، کاکتیہ، پالامورو، ستاواہنا، تلنگانہ اور مہاتما گاندھی جیسی یونیورسٹیوں میں تحقیق کم ہو رہی ہے۔ تحقیق کے لیے درکار گائیڈز کی شدید کمی ہے۔ یہ انہیں بغیر تحقیق کے یونیورسٹیوں میں تبدیل کرنے والا ہے۔ نتیجتاً یونیورسٹیوں کی بدنامی ہو رہی ہے۔ کچھ سینئر پروفیسرز تجزیہ کر رہے ہیں کہ اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو کچھ یونیورسٹیاں اپنی حیثیت کھو سکتی ہیں۔
ریاست کی 12 یونیورسٹیوں میں تقریباً 2,060 تقرریاں جن میں اسسٹنٹ پروفیسرز، ایسوسی ایٹ پروفیسرز، اور پروفیسرز شامل ہیں، کی جانی ہیں۔ ان کی جگہ نہ لینے سے سنگین اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ خالی جائیدادیں پُر نہ ہونے کی وجہ سے موجودہ عملے پر دباؤ بڑھ رہا ہے۔ تمام طلبہ یونینز کا مطالبہ ہے کہ حکومت فوری طور پر زیر التواء تقرریاں کرے۔اس کے ساتھ ان 12 یونیورسٹیوں کے تمام وائس چانسلرز سے کھل کر درخواست کی ہے کہ حکومت فوری طور پر تقرریاں کرے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ ستم ظریفی ہے کہ کانگریس حکومت اس سب کے باوجود یونیورسٹیوں کے مسائل کو نظر انداز کر رہی ہے۔ ادھر اپوزیشن نے بھی تعلیم کولیکر حکومت پر لا پرواہی برتنے کاالزام لگایا ہے۔