سپریم کورٹ نے وقف (ترمیمی) ایکٹ 2025 کے جواز کو چیلنج کرنے والی عرضیوں پر اپنا فیصلہ سناتے ہوئے قانون کی کچھ دفعات پر روک لگا دی ہے۔ عدالت نے فی الحال اس شق پر روک لگا دی ہے، جس میں وقف بورڈ کا رکن بننے کے لیے کم از کم 5 سال تک اسلام کی پیروی کی شرط رکھی گئی تھی۔ عدالت نے کہا کہ جب تک اس سلسلے میں مناسب ضابطے نہیں بنائے جاتے اس دفعہ کو نافذ نہیں کیا جائے گا۔
سپریم کورٹ نے سیکشن 3(74) سے متعلق ریونیو ریکارڈ کے قانون پر بھی پابندی لگا دی ہے۔ عدالت نے واضح کیا کہ ایگزیکٹو کسی کے حقوق کا فیصلہ نہیں کر سکتا۔ جب تک ریونیو ریکارڈ میں نام کے بارے میں حتمی فیصلہ نہیں ہو جاتا، تب تک وقف جائیداد سے کسی کو بے دخل نہیں کیا جا سکتا۔ البتہ، عدالت نے یہ بھی کہا کہ اس دوران کسی تیسرے فریق کے حقوق قائم نہیں کیے جائیں گے۔
ساتھ ہی سپریم کورٹ نے ہدایت دی ہے کہ جہاں تک ممکن ہو وقف بورڈ کا چیف ایگزیکٹو آفیسر ایک مسلمان ہونا چاہیے، جبکہ اس ترمیم پر روک لگانے سے انکار کیا ہے جو غیر مسلم کو چیف ایگزیکٹو آفیسر کے طور پر تعینات کرنے کی اجازت دیتی ہے۔
عدالت نے وقف بورڈ کی ساخت کے بارے میں بھی تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ بورڈ میں زیادہ سے زیادہ تین غیر مسلم اراکین ہو سکتے ہیں، یعنی 11 میں سے اکثریت مسلم کمیونٹی سے ہونی چاہیے۔ ساتھ ہی، جہاں تک ممکن ہو، بورڈ کا چیف ایگزیکٹو آفیسر (سی ای او) مسلم ہونا چاہیے۔ عدالت نے واضح کیا کہ اس کا یہ حکم وقف ایکٹ کی قانونی حیثیت پر حتمی رائے نہیں ہے اور جائیداد کے اندراج سے متعلق قوانین میں کوئی غلطی نہیں ہے۔