آج عبادت گاہوں کے تحفظ و دفاع کا مسئلہ بہت نازک صورت اختیار کر چکا ہے، جس کے حوالے سے نہ صرف عام لوگوں کو مفاد پرستی کا نشہ چڑھا ہوا ہے، بلکہ سیاسی جماعتیں بھی برابر اس معاملے میں اپنی ساکھ مضبوط کرنے کی کوششیں کر رہی ہیں۔ اس ناگفتہ بہ دور میں جہاں دنیا بھر میں مذہب کو سیاست میں شامل کرنے کی ایک ہوڑ لگی ہوئی ہے، وہیں ہندوستان میں بھی ایسی جماعتیں ہیں جو مذہبی معاملات کو سیاسی مفادات سے جوڑ کر اپنا الو سیدھا کر رہی ہیں۔
بابری مسجد کی شہادت، سیاسی موضوع!
بابری مسجد کا تنازعہ 1949 میں شروع ہوا، جب رام کی مورتیوں کے نمودار ہونے کے بعد حکومت نے مسجد کو بند کر دیا۔ 1986 میں راجیو گاندھی کی حکومت نے بابری مسجد کے تالے کھول دیے، جس سے تنازعہ مزید شدت اختیار کر گیا۔ 6 دسمبر 1992 کو نفرت پسندوں نے مسجد کو شہید کر دیا، اور تب سے یہ مسئلہ سیاست کا ایک مستقل موضوع بن گیا۔بالآخر 9 نومبر 2019 کو سپریم کورٹ نے یک طرفہ فیصلہ سناتے ہوئے متنازعہ زمین ہندوؤں کے حوالے کرنے کا حکم دیا اور ہدایت کی کہ آئندہ کسی مسجد وغیرہ کے حوالے سے اس طرح کے معاملات کورٹ میں پیش نہ کیے جائیں۔ قانونی حیثیت سے ہونا تو یہی چاہیے تھا کہ سپریم کورٹ کے اس حکم کے بعد کسی نچلی عدالت میں عبادت گاہوں سے متعلق کیسز قبول نہ کیے جاتے، لیکن موجودہ وقت میں کچھ ایسا لگ رہا ہے کہ ہمارے ملک میں قانون کی بالادستی صرف کتابی اور زبانی حد تک باقی رہ گئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سپریم کورٹ کے اتنے واضح حکم کے بعد بھی برابر نچلی عدالتوں میں اس طرح کے کیسز فائل کیے جاتے رہے، جن سے ہندو مسلم تفریق کی خلیج وسیع سے وسیع تر ہوتی رہے اور اس کا براہ راست فائدہ برسرِ اقتدار پارٹی کو ملتا رہا۔سپریم کورٹ کے اس حکم کو نظر انداز کرنے کا سب سے تشویشناک نتیجہ یہ ہوا کہ وقت کے ساتھ ساتھ نئے تنازعات سامنے آنے لگے، جن میں وارانسی کی گیان واپی مسجد، متھرا کی عیدگاہ، اور سنبھل مسجد کے معاملات شامل ہیں۔
1991ایکٹ قانون تحفظ عبادت گاہ:
مرکزی حکومت نے 1991 میں "قانون تحفظ عبادت گاہ" منظور کر کے 15 اگست 1947 کو مذہبی مقامات کی حیثیت برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا؛ تاکہ تمام مذہبی تنازعات کو ختم کیا جا سکے۔یہ قانون ہندوستان کی سیکولر شناخت کو مضبوط بناتا ہے، لیکن 20 مئی 2022 کو سپریم کورٹ کے جسٹس چندر چوڑ نے وارانسی کے کیس میں کہا کہ "قانون تحفظ عبادت گاہ 1991" عبادت گاہوں کے مذہبی کردار کے تعین سے منع نہیں کرتا۔ ان کے زبانی مشاہدات نے تنازعات کے دروازے دوبارہ کھول دیے۔حال ہی میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس سنجیو کھنہ، جسٹس بچے کمار، اور جسٹس کے وی وشواناتھن پر مشتمل بینچ نے ہدایت دی کہ آئندہ کسی عبادت گاہ کے خلاف مقدمہ درج نہ کیا جائے۔ عدالت نے کہا کہ یہ قانون ملک کی سیکولر بنیاد اور ہم آہنگی کے لیے اہم ہے۔
مذہبی آزادیوں کی خلاف ورزی !
وکلاء کے میٹنگ میں ڈاکٹر تبریز احمد (Dean Manuu law school)نے ایک تقریب میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اگر پارلیمنٹ میں قانون تحفظ عبادت گاہ 1991 میں ترمیم کی گئی تو ہمیں دور اندیشی سے کام لینا ہوگا۔ انہوں نے زور دیا کہ مذہبی معاملات پر شعور بیدار کرنے کے لیے تعلیمی اداروں میں سیمیناراور کانفرنس منعقد کی جائیں۔انھوں نے مزید کہا کہ عبادت گاہوں کی نوعیت کو تبدیل کرنے کی کوششیں آرٹیکل 14 اور 15 کے مساوات کے حقوق، آرٹیکل 21 کے جینے کے حق، اور آرٹیکل 25، 26، اور 29 کے تحت تسلیم شدہ مذہبی آزادیوں کی خلاف ورزی ہے۔
مسجد کے لیے وقف ضروری !
اسلامی نظریہ کے مطابق، مسجد کے لیے وقف ضروری ہے، اور کسی بھی مذہبی تنازعے کو ختم کرنے کے لیے ہمیں قانون کی بالادستی کو تسلیم کرنا ہوگا۔ابھی جب کہ سپریم کورٹ نے اس مسئلے پر سماعت کو آگے بڑھا دیا ہے، اس دوران ہمیں چاہیے کہ کسی سیاسی جماعت اور ماہر وکلاء کے ساتھ مل کر جلد از جلد اس کا لائحہ عمل تیار کریں۔ ورنہ اگر ہم اسی طرح خاموش رہے، تو اس کا خمیازہ ہمیں بھگتنا ہوگا۔ اگر سمبھل کی مسجد اور اجمیر کی درگاہ ہمارے ہاتھ سے نکل گئیں یا اس مسئلے نے طول پکڑ لیا، تو ہمیں کئی ہزار مساجد اور وقف کی زمینیں کھونا پڑیں گی۔ اور پھر حکومت اسی مسئلے پر سیاست کرتی رہے گی۔