Tuesday, September 16, 2025 | 24, 1447 ربيع الأول
  • News
  • »
  • قومی
  • »
  • وقف (ترمیمی) ایکٹ 2025کے عبوری فیصلے پر صدر جمعیۃعلماء ہند مولانا محمود اسعد مدنی کی تنقید

وقف (ترمیمی) ایکٹ 2025کے عبوری فیصلے پر صدر جمعیۃعلماء ہند مولانا محمود اسعد مدنی کی تنقید

Reported By: Munsif News Bureau | Edited By: Mohammed Imran Hussain | Last Updated: Sep 15, 2025 IST     

image
 جمعیۃ علماء ہند کے صدر حضرت مولانا محمود اسعد مدنی نے وقف ایکٹ 2025 کے سلسلے میں سپریم کورٹ کے عبوری فیصلے پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ’وقف بائے یوزر‘ سے متعلق عدالت کا تبصرہ ہمارے لیے انتہائی تشویش کا باعث ہےجس پر سنجیدہ غور وفکر ناگزیر ہے۔
 
مولانا مدنی نے کہا کہ ہماری طرف سے عدالت میںاس قانون کے متعلق کئی سنگین خدشات پیش کیےگئے تھے، جن میں سے ایک یہ تھا کہ کلکٹر یا دیگر انتظامی افسران کو وقف جائیداد کی نوعیت طے کرنے کا غیر معمولی اختیار دینا اور وقف ٹریبونل کا خاتمہ مذہبی حقوق میں سرکاری مداخلت کا ذریعہ بنے گا۔ یہ ایک حد تک اطمینان بخش ہے کہ سپریم کورٹ نے اس پر عبوری روک لگا دی ہے اور دیگر کچھ معاملات میں بھی جزوی راحت دی ہے۔ تاہم سب سے بڑا اور بنیادی مسئلہ’وقف بائے یوزر ‘ کا ہے۔
 
مولانا مدنی نے کہا کہ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ملک میں چار لاکھ سے زائد وقف جائیدادیں’وقف بائے یوزر ‘ کے زمرے میں شامل ہیںجن میں ایک لاکھ انیس ہزار مساجد اور ڈیڑھ لاکھ قبرستان کی جائیدادیں ہیں۔ ان میں سے 80 فیصد سے زائد رجسٹرڈ نہیں ہیں۔ موجودہ ترمیمی قانون نے ’ وقف بائے یوزر ‘ کو سرے سے کالعدم قرار دے دیا ہے اور جزوی ترمیم کے ذریعہ پہلے سے رجسٹرڈ جائیدادوں کومستثنیٰ کرکے یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی کہ کوئی بڑا نقصان نہیں ہوگا۔ حالاں کہ یہ ترمیم ہمارے اصل خدشے کا حل نہیں ہوسکتی۔
 
مولانا مدنی نے کہا کہ ’ وقف بائے یوزر‘ کو قانون سے خارج کرنا اسلامی اصولوں اور صدیوں پرانی مذہبی روایت کی کھلی نفی ہے۔ یہ براہِ راست مسلمانوں کے مذہبی حقوق پر ضرب ہے جب کہ آئینِ ہند نے ان حقوق کے تحفظ کی ضمانت دی ہے۔انھوں نے کہا کہ جمعیۃ کا ہمیشہ سے یہ موقف رہا ہے کہ وقف ایک خالص دینی و شرعی معاملہ ہے، اس سے متعلق قانون میں ایسی دفعات شامل نہیں ہونی چاہئیں جو اس کی مذہبی حیثیت کو مجروح کریں یا مسلمانوں کے حقِ مذہبی آزادی میں رکاوٹ ڈالیں۔ لہٰذا سپریم کورٹ کا یہ عبوری فیصلہ اُس وقت تک قابلِ اطمینان نہیں کہا جا سکتا جب تک’وقف بائے یوزر‘کو مکمل تحفظ نہ مل جائے۔
 
مولانا مدنی نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ عدالت نے اپنے عبوری فیصلے کے پیرا 143 تا 152 میں جو تبصرہ کیا ہے، اس سے’وقف بائے یوزر‘ کے تحفظ کا مسئلہ مزید پیچیدہ ہوگیا ہے اور اس کی زد میں زیادہ تر ہماری مساجد اور قبرستان کی جائیدادیں ہیں ۔ واضح ہو کہ عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ وقف بائے یوزر کا خاتمہ بادی النظر میں یک طرفہ نہیں ہے کیونکہ 1923 کے وقف ایکٹ سے ہی وقف کے اندراج کی شرط موجود تھی۔ اگر وقف جائیدادیں ایک صدی سے زائد عرصے تک رجسٹرڈ نہیں ہوئیں تو اب شکایت نہیں کی جاسکتی۔ 
 
مولانا مدنی نے کہا کہ جمعیۃ علماء اپنے وکلا اور ملی اداروں کے ساتھ مل کر پوری سنجیدگی اور حکمت کے ساتھ یہ جدوجہد جاری رکھے گی تاکہ آئین ِ ہند میں دیے گئے مذہبی آزادی اور اقلیتی حقوق کے تحفظ کو یقینی بنایا جا سکے۔