2021 میں طالبان نے دوسری بارافغانستان پر قبضہ کیا۔ اس کے بعد سے انہوں نے اقتدار پراپنی گرفت مضبوط کی، خواتین اور لڑکیوں کوعوامی زندگی سے باہر کر دیا، اندرونی مخالفت اور بیرونی چیلنجز کو ختم کیا، اورحال ہی میں روس۔ جو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا مستقل رکن ہے۔ سے بطور افغانستان کی باضابطہ حکومت پہلا اعتراف بھی حاصل کر لیا۔طالبان فرمانوں کے ذریعے حکومت کرتے ہیں، لیکن افغان عوام کی ضروریات اور خواہشات صرف احکامات اور نظریے سے پوری نہیں ہو سکتیں۔ ماحولیاتی تبدیلی، بڑھتی آبادی اور غیرملکی امداد میں شدید کٹوتیاں طالبان کی حکمرانی کی اصل آزمائش ہوں گی۔ جیسے ہی طالبان اپنے اقتدار کے پانچویں سال میں داخل ہو رہے ہیں۔ یہ ہیں پانچ اہم نکات:
سپریم لیڈر نے اپنی پوزیشن مضبوط کرلی
کابل سے دور قندھار میں مقیم ہبت اللہ اخوندزادہ 2016 سے طالبان کی قیادت کر رہے ہیں۔ ان کا مقصد گزشتہ 20 سال سے ایک اسلامی نظام قائم کرنا تھا، جو انہوں نے "امر بالمعروف و نہی عن المنکر" کے قانون کی منظوری سے مزید واضح کیا۔ اس قانون میں افغان معاشرتی زندگی کے کئی پہلو شامل ہیں، یہاں تک کہ یہ بھی کہ لوگ کس سے میل جول رکھ سکتے ہیں۔اخوندزادہ کے حامی انہیں اعلیٰ مذہبی اختیار کا حامل قرار دیتے ہیں۔ اپریل میں اعلیٰ تعلیم کے وزیر نے یہاں تک کہہ دیا کہ اخوندزادہ پر تنقید توہینِ مذہب کے مترادف ہے اور ان کی اطاعت دین کا حکم ہے۔
اندرونی اختلافات دب گئے
طالبان کے اندرکچھ حلقے خواتین پر پابندیوں میں نرمی کے حامی تھے تاکہ دنیا سے تعلقات بہتر ہوں، لیکن اخوندزادہ اور ان کے قریبی ساتھیوں نے یہ دباؤ برداشت کیا اور اپنی پالیسی برقرار رکھی۔ اب طالبان ہر سال اربوں ڈالر کا ٹیکس اکٹھا کر کے ملک کا نظام چلا رہے ہیں۔ بااثر رہنما، جیسے وزیر داخلہ سراج الدین حقانی، کمزور ہو گئے ہیں۔ اخوندزادہ نے فوجی ساز و سامان پر براہِ راست کنٹرول حاصل کر لیا ہے، جس سے وزارت دفاع اور وزارت داخلہ کے اثرات کم ہو گئے ہیں۔
خواتین اور لڑکیوں کے لیے کوئی امید نظر نہیں آتی
روس کی جانب سے طالبان کو تسلیم کیا جانا افغان خواتین کے لیے مایوس کن پیغام ہے۔ افغان صحافی زہرا نادر کے مطابق، یہ طالبان کو یہ احساس دلاتا ہے کہ وہ خواتین کے حقوق پامال کر کے بھی سیاسی فوائد حاصل کر سکتے ہیں۔طالبان کا کہنا ہے کہ خواتین کے حقوق محفوظ ہیں، لیکن زمینی حقیقت اس کے برعکس ہے۔ احتجاج کرنے والی خواتین کو کچل دیا گیا ہے، اور عوامی مخالفت خوف کی وجہ سے دب گئی ہے۔ اس کے باوجود خواتین خاموشی سے مستقبل کے لیے تیاری کر رہی ہیں، اس امید پر کہ یہ جبر ہمیشہ قائم نہیں رہے گا۔
علاقائی تعلقات مفاداتی ہیں
افغانستان چھ ممالک سے گھرا ہوا ہے، اور طالبان کے تعلقات زیادہ تر تجارت، سرحدی سلامتی، پانی اور ٹرانزٹ کے معاملات پر مبنی ہیں۔ مغربی دنیا کی جانب سے تسلیم نہ کیے جانے کے باوجود خطے کے ممالک طالبان سے عملی تعلقات رکھ رہے ہیں۔ برطانوی تھنک ٹینک کے مطابق، خطے میں طالبان کی موجودگی اب معمول کا حصہ بن گئی ہے، اور مغرب کی "غیر تسلیم" پالیسی بتدریج کمزور ہو رہی ہے۔
اصل آزمائش ابھی باقی ہے
اپریل تک امریکا افغانستان کا سب سے بڑا امداد دہندہ تھا، لیکن امداد بند ہونے سے لاکھوں افغانوں کے روزگار پر اثر پڑا ہے۔ غیر سرکاری ادارے اور این جی اوز اپنے منصوبے بند کر رہی ہیں، جس سے طالبان کی آمدنی میں بھی کمی آئے گی۔ آبادی میں تیزی سے اضافہ اور پڑوسی ممالک سے بے دخل ہونے والے افغانوں کی واپسی مزید معاشی دباؤ ڈالے گی۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ طالبان کو یہ فیصلہ کرنا ہو گا کہ وہ صرف حکومت کرنا چاہتے ہیں یا واقعی افغانستان کو بہتر جگہ بنانا چاہتے ہیں۔