جنوبی کشمیر کے ضلع اننت ناگ کے گاؤں چک اشرداس، ونتراگ کے رہائشی محمد اسلم خان نے ثابت کر دیا ہے کہ اگر ارادہ مضبوط اور سوچ مثبت ہو تو زراعت جیسے پیشے میں بھی نئی راہیں کھولی جا سکتی ہیں۔ سنہ 2008 میں محمد اسلم نے تجرباتی طور پر اپنی زمین کے ایک چھوٹے سے حصے پر تربوز کی کاشت کی۔ پہلی ہی فصل میں کامیابی کے بعد انہوں نے چار کنال زمین پر کاشتکاری کی جس سے انہیں 100 کونٹل سے زائد تربوز کی پیداوار حاصل ہوئی۔
اس کامیابی کے بعد اسلم نے محکمہ زراعت کی رہنمائی اور جدید زرعی تکنیکوں کی مدد سے تربوز کی کاشتکاری کو وسعت دی۔ آج اُن کے زیر نگرانی 55 کنال اراضی پر تربوز کی فصل لہلہا رہی ہے۔ وادی کی موزوں آب و ہوا اور بیرون ریاستوں میں جولائی کے بعد تربوز کی قلت کی وجہ سے کشمیر کا تربوز اچھی قیمت پر فروخت ہوتا ہے۔
محمد اسلم خان نے چار ہائبرڈ اقسام کے مکمل آرگینک تربوز اگائے ہیں جن کا وزن 15 کلوگرام تک ہوتا ہے۔ ان کی کاوش نے علاقے کے کئی نوجوانوں اور کسانوں کو اس طرف راغب کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب چک اشرداس گاؤں ’’واٹر میلن ولیج‘‘ کے نام سے مشہور ہو چکا ہے۔ چیف ایگریکلچر آفیسر اننت ناگ اعجاز حسین ڈار کے مطابق محمد اسلم ایک محنتی اور باصلاحیت کسان ہیں جنہیں محکمہ کی جانب سے دو ہائی ٹیک پالی ہاؤس اور تربیت بھی فراہم کی گئی ہے۔
محمد اسلم خان کی محنت نے ثابت کیا ہے کہ وادی کی زمین سیب اور اخروٹ تک محدود نہیں، بلکہ سال میں مختلف فصلیں اگا کر کسان اپنی آمدنی کئی گنا بڑھا سکتے ہیں۔ ان کی یہ کاوش کشمیری زراعت کے لیے ایک نئی سمت اور امید لے کر آئی ہے۔