امریکی مقرر اسٹیفن ایزل نے ہندوستان کے پانچ شہروں میں منعقدہ اعلیٰ اثر والے پروگراموں کے ذریعے مصنوعی ذہانت، ڈیجیٹل پیداوار، اور دانشورانہ املاک کے شعبوں میں امریکی قیادت کو اجاگر کیا۔
چاروی اروڑا
جب مصنوعی ذہانت (اے آئی) اور سائبر سکوریٹی معیشتوں اور معاشروں کی شکل بدل رہی ہیں، تو یہ سوال پہلے سے کہیں زیادہ اہم ہو گیا ہے کہ قیادت کس کے ہاتھ میں ہے اور کس انداز میں۔ امریکی مقرر اسٹیفن ایزل نے ہندوستان کے پانچ شہروں کے حالیہ دورے کے دوران انہیں موضوعات پر روشنی ڈالی۔ ایزل واشنگٹن ڈی سی میں قائم انفارمیشن ٹیکنالوجی اینڈ انوویشن فاؤنڈیشن کے نائب صدر برائے عالمی اختراعی پالیسی اور فاؤنڈیشن کے سینٹر فار لائف سائنسز انوویشن کے ڈائریکٹر ہیں۔ امریکی محکمۂ خارجہ کے اسپیکر پروگرام کے تحت، ایزل نے چنئی، کولکاتہ، نئی دہلی، ممبئی، اور لکھنؤ کا دورہ کیا، جہاں انہوں نے لیکچرس، پینل مباحثوں اور اشتراکی اجلاس کے ذریعہ طلبہ، محققین، کاروباری افراد اور صنعتی رہنماؤں سے تبادلۂ خیال کیا۔ مصنوعی ذہانت، روبوٹکس، ڈیجیٹل پیداوار، اور دانشورانہ املاک کے تحفظ میں امریکہ کے عالمی معیار کے کردار کو اجاگر کرتے ہوئے، ایزل کی سرگرمیوں نے عالمی معیشت میں امریکہ کی مسابقتی برتری کو مزید مضبوط کیا۔
سپلائی چین کا تحفظ، خوشحالی میں اضافہ
ایزل کے نزدیک، امریکہ اور ہندوستان کے درمیان تعاون کو مضبوط بنانا اُن سپلائی چینس کے تحفظ کے لیے نہایت اہم ہے جو امریکی معاشی سلامتی کی بنیاد ہیں۔ انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا ’’ آزاد معاشروں کے لیے یہ ضروری ہے کہ دنیا کی ہائی ٹیک مصنوعات کی پیداوار کا بڑا حصہ دوستانہ اور جمہوری معاشروں میں ہو۔ ‘‘
اپنی ملاقاتوں کے دوران، ایزل نے یہ مؤقف پیش کیا کہ مصنوعی ذہانت، سیمی کنڈکٹرس، اور لائف سائنسز میں امریکی قیادت نہ صرف امریکی صنعتوں کے استحکام کو یقینی بناتی ہے بلکہ وہاں کے کارکنوں اور کاروباروں کے لیے نئے مواقع بھی پیدا کرتی ہے۔ انہوں نے اس بات کی بھی نشاندہی کی کہ اہم معدنیات اور بایو مینوفیکچرنگ امریکہ کے اختراعی نظام کو مضبوط بنانے اور اس کی خوشحالی کو آگے بڑھانے میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔
اختراع اور سلامتی کا توازن
اختراع میں قیادت کے ساتھ ساتھ سلامتی کے خطرات کا حل نکالنا بھی ضروری ہے۔اس لیے ایزل نے امریکہ کی اُن کوششوں کی نشاندہی کی جن کے تحت مینوفیکچرنگ ایکسٹینشن پارٹنرشپ پروگرام کے ذریعے چھوٹی اور درمیانی صنعتوں کو محفوظ طریقے سے ٹیکنالوجی اپنانے میں مدد دی جا رہی ہے، جس میں امریکی کمپنیوں کے لیے سائبر سکوریٹی کی تیاری کا جائزہ بھی شامل ہے۔
انہوں نے قومی انسٹی ٹیوٹ برائے معیار اور تکنیک میں قائم امریکہ کے نئے اے آئی سیفٹی انسٹی ٹیوٹ کو متعارف کروایا جو مصنوعی ذہانت کے نظاموں میں کمزوریوں اور واقعات کا جائزہ لیتا ہے۔ایزل نے بتایا ’’ ہمیں ہندوستان کے ساتھ اے آئی سلامتی کے ان اقدامات پر تعاون کرنا چاہیے ۔‘‘ اور اس بات پر زور دیا کہ امریکی معیار اور فریم ورک عالمی اختراعی سلامتی کی رفتار متعین کرتے ہیں۔
خیالات کا تحفظ، ترقی کی توانائی
سپلائی چین کے تحفظ اور مصنوعی ذہانت و سیمی کنڈکٹرس میں اختراع کے فروغ پر ہونے والی گفتگو کو آگے بڑھاتے ہوئے، ایزل کے پروگراموں کا ایک نمایاں پہلو یہ تھا کہ امریکہ کی ترقی میں مضبوط دانشورانہ املاک کے تحفظ کا کردار کیا ہے۔انہوں نے بتایا’’ ۱۹۹۶ سے ۲۰۲۰ تک امریکی جامعات نے چالیس ہزار پیٹنٹ تخلیق کیے اور اٹھارہ ہزار نئی کمپنیاں قائم کیں۔ ایزل نے اس کامیابی کا سہرا پیٹنٹ اینڈ ٹریڈ مارک لا امینڈ منٹس ایکٹ کے سر باندھا جو جامعات ، غیر منافع بخش تحقیقی اداروں، اور چھوٹے کاروباروں کو یہ اجازت دیتا ہے کہ وہ وفاقی فنڈ سے چلنے والے تحقیقی پروگراموں کے تحت تیار کی گئی ایجادات کی ملکیت، پیٹنٹ اور تجارت کاری کر سکیں۔انہوں نے کہا’’ یہ امریکی فریم ورک سائنسی تحقیق کو اسٹارٹ اپ کمپنیوں میں بدلنے، امریکی مسابقت اور خوشحالی کو فروغ دینے میں کلیدی کردار ادا کر رہا ہے۔‘‘
ایزل نے اس ریکارڈ کو اجاگر کر کے دکھایا کہ کس طرح امریکی پالیسیاں علم کو اعلیٰ معاوضے والی ملازمتوں اور مستقل معاشی طاقت میں تبدیل کرتی ہیں۔
امریکی قیادت کی مرکزی حیثیت
چنئی، کولکاتہ، ممبئی، نئی دہلی اور لکھنؤ میں، ایزل کی تقریبات نے یہ پیغام عام کیا کہ جب امریکہ ٹیکنالوجی میں قیادت کرتا ہے، تو وہ نہ صرف دوطرفہ تجارت اور سرمایہ کاری کو فروغ دیتا ہے بلکہ امریکہ کی طویل مدتی خوشحالی کو بھی یقینی بناتا ہے۔ انہوں نے اپنی بات یوں ختم کی ’’ اختراعی قیادت امریکہ کی خوشحالی کے لیے مرکزی حیثیت رکھتی ہے۔‘‘شراکت داریوں میں سرمایہ کاری کے ذریعے، امریکہ عالمی سطح پر اختراع کو فروغ دینے اور اقتصادی و تکنیکی ترقی کے راستے بنانے کا ہدف رکھتا ہے۔