مہاراشٹر میں نئی سیاسی صف بندی دیکھی جا رہی ہے۔ بی ایم سی الیکشن سے پہلےشیوسینا (یو بی ٹی) اور مہاراشٹر نونرمان سینا (ایم این ایس) کے درمیان اتحاد کا اعلان کیا گیا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا شیوسینا یو بی ٹی کے ایم این ایس سے اتحاد کرنے پر، اپوزیشن اتحاد مہا وکاس اگھاڑی( ایم وی اے) اتحاد بکھرگیا ہے۔ اپوزیشن کے ایم وی اے میں شیو سینا یوبی ٹی کےساتھ، کانگریس، این سی شرد پوار بھی شامل ہیں۔
کانگریس نے بھی اپنا راستہ الگ کر لیا
ادھرکانگریس نے شمالی ہندوستان کے باشندوں کے وقار ، ان کے تحفظ، خود روزگار کے فروغ اور شہری سہولیات سے متعلق اہم وعدے شامل گئے ہیں۔ یہ منشور شاردا گیان پیٹھ انٹرنیشنل اسکول، دت مندر روڈ، ملاڈ مشرق میں منعقدہ ایک پریس کانفرنس میں جاری کیا گیا۔ ایم این ایس ، شمالی ہند کےباشندوں کی مخالفت کی ہے۔ اور مچے ممبئی کا نعرہ دیا ہے۔ یعنی شیو سینا یو بی ٹی اور کانگریس نے اپنا راستہ الگ کر لیا ہے۔ جس کا بطہ اعلان نہیں کیا گیا۔
اتحاد پر بی جے پی کا رد عمل
شیوسینا (یو بی ٹی) اور مہاراشٹر نونرمان سینا (ایم این ایس) کے درمیان بی ایم سی (بریہن ممبئی میونسپل کارپوریشن) انتخابات کے لیے اتحاد کا اعلان کیا گیا ہے۔ حکمراں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے بدھ کو دعویٰ کیا کہ برہن ممبئی میونسپل کارپوریشن (بی ایم سی) انتخابات کے لیے ادھو ٹھاکرے اور راج ٹھاکرے کے درمیان اتحاد کسی تاریخی دور کا آغاز نہیں ہوگا بلکہ ان کے لیے تاریخی شکست کا آغاز ہوگا۔بی جے پی نے کہا کہ راج ٹھاکرے کو یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ جب ادھو ٹھاکرے نے کانگریس اور شرد پوار کا ساتھ دیا تو دونوں پارٹیوں کی تاریخ تقسیم ہوگئی۔ ادھو ٹھاکرے کی قیادت والی شیو سینا کے ساتھ جانے سے راج ٹھاکرے کو بھی شکست کے سوا کچھ نہیں ملے گا۔
مہاراشٹر کے انفارمیشن ٹکنالوجی کے وزیر اور بی ایم سی انتخابات کے بی جے پی کے انچارج آشیش شیلر نے ایکس پر ایک شاعرانہ پوسٹ میں، ٹھاکرے کزنز کے درمیان اتحاد پر تنقید کرتے ہوئے الزام لگایا کہ انہوں نے بی ایم سی کے خزانے کو لوٹنے کے لیے ہاتھ ملایا ہے۔ انھوں نے پوچھا۔"...کیا آپ سب بی ایم سی کے خزانے کو لوٹنے کے لیے اکٹھے نہیں ہوں گے؟ ممبئی والے آپ سے ہر کونے اور کونے میں پوچھیں گے... آپ اس وقت اتنے مختلف کیوں تھے؟ آج آپ ایک دوسرے کے گلے میں بازو کیوں ڈال رہے ہیں؟"
ریاستی بی جے پی میڈیا انچارج نوناتھ بان نے مزید الزام لگایا کہ شیوسینا (یو بی ٹی) اور ایم این ایس دونوں اقتدار کے لیے اکٹھے ہوئے ہیں نہ کہ ممبئی یا ممبئی والوں کے لیے۔ انہوں نے کہا کہ ان دونوں جماعتوں کے پاس ترقی کا کوئی ایجنڈا نہیں ہے، یہ دونوں جماعتیں صرف اقتدار کے حساب کتاب کو ذہن میں رکھ کر اکٹھی ہوئی ہیں، ان دونوں جماعتوں کا اکٹھا ہونا طاقت کی علامت نہیں بلکہ دونوں کی شکست کا اعتراف ہے۔
بان نے کہا۔"جب ادھو ٹھاکرے وزیر اعلیٰ تھے تو انہوں نے میٹرو اور کوسٹل روڈ جیسے عام ممبئی والوں کے لیے فائدہ مند پروجیکٹوں کو روک دیا۔ انہیں اس کے لیے ممبئی والوں سے معافی مانگنی چاہیے۔ ادھو ٹھاکرے اور آدتیہ ٹھاکرے کو بھی بی ڈی ڈی چاولوں میں مکانات مہنگے بنانے کی ذمہ داری قبول کرنی چاہیے،"
انہوں نے ادھو ٹھاکرے اور شیو سینا (یو بی ٹی) کے ایم پی سنجے راوت کا بی ایم سی انتخابات کے لیے اپنے وعدے جمع کرانے پر طنز کرتے ہوئے کہا کہ مار پیٹ، بھتہ خوری اور خوف کی سیاست شیو سینا (یو بی ٹی) اور ایم این ایس کی شناخت ہے۔
"بالا صاحب ٹھاکرے ہر لحاظ سے ایک برانڈ تھے۔ لیکن ادھو ٹھاکرے نے اپنے نظریات کو ترک کر دیا اور ہندوتوا کو بھول گئے۔ بی جے پی کو ہندوتوا کے نظریات کے ساتھ سمجھوتہ نہ کرنے پر قابل احترام بالاصاحب کا آشیرواد ملے گا۔ ادھو ٹھاکرے نے سنبھاجی نگر کے راشد مامو کو قبول کرنے کا فیصلہ کیا ہے، جس نے ایک شیو سوکشودھنے مسجد پر پتھراؤ کیا تھا۔" مامو پر، مراٹھی لوگوں پر نہیں،‘‘ بان نے کہا۔ انہوں نے ادھو ٹھاکرے کو نشانہ بناتے ہوئے ان سے پوچھا کہ کیا انہوں نے اس درد کے بارے میں سوچا ہے جو بالاصاحب ٹھاکرے نے اقتدار کے لیے رشید مامو کے ساتھ ہاتھ ملانے کی وجہ سے اپنی روح میں محسوس کیا ہوگا۔