جمہوری نظام کے چار ستون مقننہ، عاملہ، عدلیہ اور صحافت ہیں۔ یہ ستون مل کر ایک متوازن اور فعال جمہوری حکومت بناتے ہیں۔ یہ چاروں ستون ایک دوسرے سے آزاد ہوتے ہیں اور ایک دوسرے پر چیک اینڈ بیلنس رکھتے ہیں۔ اس طرح، کوئی بھی ایک ادارہ طاقتور نہیں ہو جاتا اور جمہوریت مضبوط رہتی ہے۔ ان میں سے کوئی ایک ستون بھی کمزور پڑجائے یا اپنی ذمہ داریوں کی ادائیگی میں کوتاہی کرے تو جمہوری نظام درہم برہم ہوجاتا ہے۔ جمہوریت باقی نہیں رہتی ۔
عدالتی عہدوں پرحکمراں طبقہ کےلوگوں کا تقرر!
ملک میں گزشتہ ایک دہائی سےملک میں مقننہ یعنی قانون بنانےوالےادارے، اسمبلی پارلیمنٹ میں کیسے کام کر رہے ہیں سب جانتے ہیں۔ عاملہ یعنی قوانین نافذ کرنےوالےادارے جیسے حکومت بھی کہا جاتا ہے۔ وہ بھی سب پرعیاں ہیں۔ صحافت کا ایک بہت بڑا طبقہ بھی اب صاف وشفاف نہیں رہا۔ پھر بھی عوام کا بھروسہ عدلیہ پر برقرار رہا۔ لیکن چند برسوں کے دوران پیش آئے واقعات نےعدلیہ پر سے عوام کے بھروسے کو متزلزل کر دیا ہے۔ اور ایسے میں اب عدالتی عہدوں پر حکمراں طبقہ سے وابستہ لوگوں کا تقرر کیا جا رہا ہے۔اور یہ عمل جمہویرت کےلیے خطرناک اورمہلک ثابت ہو سکتا ہے۔ اب عدالتوں پر حق کےفیصلے آنے کی اْمید یں بھی ختم ہوتی نظر آر ہی ہیں۔ ایک خاص نظریہ والے اور سیاسی پس منظر والے لوگوں کی عدالتوں میں تقرری کا رجحان تشویش ناک ہے۔ کیوں کہ عدالتی عہدوں پر بھی برسراقتدار بھارتیہ جنتا پارٹی کے عہدیداران کی تقرریاں کی جا رہی ہیں۔
آرتی کا بی جے پی سے تعلق
سپریم کورٹ کالجیم کی جانب سے28 جولائی کوایڈوکیٹ آرتی ساٹھے کو بامبے ہائی کورٹ کے ایڈیشنل جج کے طور پر ترقی دینے کی سفارش کی گئی ہے۔ ایڈوکیٹ آرتی ارون ساٹھے بی جے پی مہاراشٹر کی ریاستی ترجمان رہ چکی ہیں۔ 2 وہ فروری2023 کو بی جے پی کے اْس وقت کے ریاستی صدر چندرشیکھر باونکولے نے ترجمانوں کی جو فہرست جاری کی تھی، اس میں آرتی ساٹھے کا نام بھی شامل تھا۔ وہ ممبئی بی جے پی کے قانونی سیل کی سربراہ بھی رہ چکی ہیں۔ ساٹھے کا خاندان بھی آر ایس ایس اور بی جے پی سے وابستہ رہا ہے۔ ان کے والد ارون ساٹھے، ایک معروف وکیل، سابق لوک سبھا اسپیکر سمترا مہاجن کے بھائی ہیں اور بی جے پی کی قومی ایگزیکٹو کے رکن رہ چکے ہیں۔ وہ پارٹی کے بانی ارکان میں سے ایک ہیں۔
آرتی ساٹھے پیشہ ورانہ کیریئر کے آغاز
آرتی ساٹھے اپنا پیشہ ورانہ کیریئر کے آغاز اکنامک لاء پریکٹس (ELP) کے ساتھ کام کیا اور سینئر وکیل پرسی پارڈی والا کے چیمبر کا حصہ تھیں۔ وہ سپریم کورٹ اور دیگر ہائی کورٹس میں بھی مقدمات کی دلائل دے چکی ہیں۔ساٹھ 20 سال سے زیادہ قانونی تجربے رکھتی ہیں۔ ساٹھ نے بنیادی طور پر ٹیکس کے تنازعات سے نمٹا ہے، براہ راست ٹیکس کے معاملات میں مہارت حاصل کی ہے اور سیکیوریٹیز ایکسچینج بورڈ آف انڈیا (SEBI)، سیکیورٹیز اپیلیٹ ٹریبونل (SAT)، اور کسٹمز، ایکسائز اینڈ سروس ٹیکس اپیلیٹ ٹریبونل (CESTAT) کے سامنے ازدواجی تنازعات کے ساتھ ساتھ وہ ہائی کورٹ کے سامنے بحث کی ہے۔
اپوزیشن کا اعتراض
ایڈوکیٹ آر ٹی ساٹھے کو جج بنانے کی سفارش نے سیاسی تنازعہ کو جنم دیا ہے، مہاراشٹر میں اپوزیشن جماعتوں نے ان کی ماضی کی سیاسی وابستگیوں پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔کانگریس اور این سی پی (ایس پی) کے لیڈروں نے سابق بی جےپی ترجمان ایڈوکیٹ آرتی ساٹھے کی بامبے ہائی کورٹ کے جج کے طور پرتقرری پر اعتراض کیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ بطور جج آرتی کی تقرری عدلیہ کی غیر جانبداری کو متاثر کرے گی۔۔سی ایل پی لیڈر وجے ودیٹیوار نے پوچھا۔ اگر بی جے پی کے ترجمان کے طور پر کام کرنے والا شخص جج بن جائے تو کیا لوگوں کے ساتھ انصاف ہوگا؟ کیا آئین کا تحفظ ہوگا؟‘‘
انتہائی سنجیدہ اور تشویشناک صورت حال
مہاراشٹر پردیش کانگریس کمیٹی کے صدر ہرش وردھن سپکال نے ۔ کہا کہ اگر کسی سیاسی جماعت کی فعال عہدیدار کو براہ راست عدالتی عہدے پر تعینات کیا جاتا ہے تو پھر ان کے فیصلوں کی غیرجانبداری پر سوالات ضرور اٹھیں گے۔ ایسی تقرریاں جمہوریت کے گلے پر چھری چلانے کے مترادف ہیں اور یہ ایک انتہائی سنجیدہ اور تشویشناک صورت حال ہے۔ ریاستی کانگریس صدر نے مزید کہا کہ 2014 سے ملک میں جمہوریت اور آئین کو مسلسل نظر انداز کر کےحکومت چلائی جا رہی ہے۔ بیشتر خودمختار ادارے حکومت کی کٹھ پتلی بن چکے ہیں اور سرکاری احکامات پر عمل کر رہے ہیں۔ اس میں اب الیکشن کمیشن کا بھی اضافہ ہو چکا ہے۔
عدلیہ کی غیر جانبداری متاثر ہوگی
این سی پی (ایس پی) کے ایم ایل اے اور پارٹی کے جنرل سکریٹری روہت پوار نے کہا کہ ساٹھے کی تقرری نے عدلیہ کی "آزادی اور غیر جانبداری" پر تشویش پیدا کی۔ "کسی ایسے شخص کی تقرری جو حکمران جماعت کی عوامی پلیٹ فارم سے وکالت کرتی ہے، جمہوریت کے لیے سب سے بڑا دھچکا ہے… جج کا عہدہ انتہائی ذمہ دار ہوتا ہے، جب حکمران جماعت کا کوئی فرد اس عہدے پر فائز ہوتا ہے تو یہ جمہوری عمل پر سنگین سوالات اٹھاتا ہے،" انہوں نے مزید کہا کہ وہ اس کی تعلیمی یا پیشہ ورانہ اہلیت پر سوال نہیں اٹھا رہے تھے۔
بی جے پی کی واضاحت
دریں اثنا، بی جے پی کے سربراہ کیشو اپادھیائے، نے اپوزیشن کی تنقید کو بے معنی قرار دیا۔ انھوں نے کہا کہ، ساٹھے نے 2024 کے اوائل میں پارٹی کے تمام عہدوں اور بنیادی رکنیت سے استعفیٰ دے دیا تھا۔ بامبے ہائی کورٹ نے دو خواتین سمیت 13 وکیلوں کو سینئر ایڈوکیٹ کے طور پر نامزد کیا ہے۔ یہ نامزدگیاں، ہائی کورٹ کی جانب سے تربیت دیے گئے ضابطوں اور 1961 کے ایڈوکیٹ قانون کی دفعہ 16 (2) کے تحت تفویض کردہ اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے کی گئی ہیں۔ مہاراشٹر بی جے پی نے دعویٰ کیا کہ تقرری "مکمل طور پر میرٹ پر مبنی اور قانونی فریم ورک کے اندر تھی۔" پارٹی سے استعفیٰ دینے کے تقریباً ڈیڑھ سال بعد ان کے نام کی سفارش کی گئی۔ اس کا پارٹی سے کوئی تعلق نہیں ہے،‘‘ مہاراشٹر بی جے پی کے چیف ترجمان کیشو اپادھیے نے کہا۔اپادھیے نے ججوں کے طور پر سیاست دانوں کی سابقہ تقرریوں کا بھی حوالہ دیا جس میں جسٹس بہار الاسلام، کے ایس ہیگڑے، آفتاب عالم اور ایف آئی ریبیلو کے ناموں کا ذکر کیا گیا۔
واضح رہےکہ سپریم کورٹ کالجیم کی جانب سے28 جولائی کو سینئر وکلا کو بطور جج سفارش کی گئی۔ مرکز کی جانب سے ان کی تقرری اور اس سلسلے میں ایک نوٹیفکیشن جاری کرنے کے بعد ساٹھے، اور دیگر وکلاء ،بامبےہائی کورٹ کے ایڈیشنل جج کے طور پر شامل کیے جائیں گے۔ دیگر دو، وکیل اجیت کڈےتھنکر اور سشیل گھوڈیشور ہیں۔فی الحال، بمبئی ہائی کورٹ میں کل 66 جج ہیں، جن میں سے 50 مستقل ہیں جبکہ 16 ایڈیشنل جج ہیں۔ عدالت کی منظور شدہ تعداد 94 ہے۔