• News
  • »
  • تعلیم و روزگار
  • »
  • اپنی اولاد کو سینے سے لگایئے: تربیت، روحانیت اور سنت کی روشنی میں ایک جامع رہنمائی

اپنی اولاد کو سینے سے لگایئے: تربیت، روحانیت اور سنت کی روشنی میں ایک جامع رہنمائی

Reported By: Munsif News Bureau | Edited By: MD Shahbaz | Last Updated: Jul 11, 2025 IST     

image
اولاد اللہ تعالیٰ کی عظیم نعمت اور امانت ہے، اور اس کی صحیح تربیت والدین کی سب سے بڑی ذمہ داری ہے۔ ہم اگر چاہتے ہیں کہ ہماری اولاد دین پر باقی رہے، نیک بنے، باادب بنے، اور آخرت میں ہمارے لیے صدقۂ جاریہ بنے، تو اس کے لیے صرف دنیاوی تعلیم اور دنیاوی آسائشیں کافی نہیں، بلکہ روحانیت، نیک صحبت، علمائے کرام سے محبت و تعلق اور سنت نبوی ﷺ کا عملی رنگ دینا ضروری ہے۔

1. اولاد کو سینے سے لگانا – شفقت، تحفظ اور تربیت کا پہلا زینہ:

اولاد کو وقت دینا، ان کو سینے سے لگانا، محبت سے پیش آنا، محض ایک جذباتی عمل نہیں، بلکہ یہ سنتِ نبوی ﷺ ہے۔

حضرت انس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں:

> نبی کریم ﷺ اپنے نواسے حسن و حسین کو بوسہ دیتے، سینے سے لگاتے، اور ان سے محبت بھرے انداز میں کھیلتے۔ (سنن ترمذی)
 
آج کے دور میں والدین کی مصروفیت نے اولاد کو تنہا کر دیا ہے۔ بچے اگر شفقت، محبت اور قربت سے محروم رہیں تو وہ غیر محفوظ، ضدی اور باغی بن جاتے ہیں۔ ان کو سینے سے لگایئے، دل کا حال سنئے، اور دین کی طرف نرمی سے رہنمائی کیجئے۔

2. روحانی محفلوں کا حصہ بنائیے:

جس طرح ہم بچوں کو اسکول بھیجتے ہیں تاکہ وہ دنیاوی علوم حاصل کریں، ویسے ہی دینی اور روحانی محفلوں میں بھی ان کی شرکت ضروری ہے۔
 
محافلِ میلاد، ذکر اللہ کی مجلسیں، دروس قرآن، نعت خوانی، اور سیرتِ طیبہ ﷺ کی نشستیں بچوں کے دلوں میں نور، محبتِ رسول ﷺ، اور دین کی عظمت پیدا کرتی ہیں۔
 
حدیث شریف:
 
 "جس گھر میں اللہ کا ذکر ہوتا ہے وہ گھر آسمان والوں کے لیے ستارے کی طرح چمکتا ہے۔" (معجم کبیر، طبرانی)
 
بچوں کو ایسی محافل میں لے جانا ان کے روحانی مستقبل میں سرمایہ کاری ہے۔

3. نیک لوگوں اور خصوصاً علمائے اہلِ سنت سے ملاقات کروائیں:

نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
 
> "اَلْمَرْءُ مَعَ مَنْ أَحَبَّ"
"آدمی قیامت میں اسی کے ساتھ ہوگا جس سے وہ محبت کرتا ہے۔" (بخاری)
 
جب آپ کی اولاد نیک لوگوں، صلحاء، اور علمائے اہل سنت سے ملے گی، ان سے دعائیں لے گی، ان کی باتیں سنے گی، ان کے چہرے کا نور دیکھے گی، تو وہ دل میں ان کی محبت پالے گی اور ان جیسا بننے کی کوشش کرے گی۔
 
اپنے بچوں کو علمائے کرام کے سامنے ادب کے ساتھ پیش کریں، ان سے دعا کروائیں، ان کے ساتھ بیٹھنے کا سلیقہ سکھائیں، اور یہ ذہن نشین کروائیں کہ:
 
 “یہ دین کے وارث ہیں، ان کا ادب، دین کا ادب ہے۔

4. ادب سکھانا – ایمان کا لازمی جزو:

ادب وہ خزانہ ہے جو علم سے پہلے سیکھنا چاہیے۔ والدین اگر خود باادب ہوں اور ادب سکھائیں تو اولاد دین و دنیا دونوں میں کامیاب ہو گی۔
 
حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے فرمایا:
"جس کو ادب مل گیا، اسے ساری خیر مل گئی۔"
 
بچوں کو بڑوں کی عزت، سلام کرنا، بڑوں سے پہلے نہ بولنا، علماء کے قدموں میں بیٹھنا، محفل میں خاموش رہنا جیسے آداب شروع سے سکھائیں۔

5. کھانے پلانے میں سنت کا لحاظ رکھیے:

نبی کریم ﷺ نے کھانے کے آداب سکھائے، بچوں کو کھانا کھلاتے وقت سنت پر عمل سکھائیں:
 
کھانے سے پہلے اور بعد میں ہاتھ دھونا
 
بسم اللہ کہہ کر کھانا
 
دائیں ہاتھ سے کھانا
 
اپنے سامنے سے کھانا
 
چھوٹوں کو پہلے دینا، بڑے کو ادب دینا
 
کھانے کے بعد الحمد للہ کہنا
 
یہ سب سنتیں بچوں کی روزمرہ زندگی میں شامل ہوں گی تو ان کا ہر عمل باعثِ برکت ہوگا۔
 
اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کی اولاد گمراہی سے بچے، گندی صحبت سے دور رہے، دین سے جڑی رہے، آپ کے لیے دنیا و آخرت میں سکون کا ذریعہ بنے، تو:
 
اپنے دل سے ان کو سینے سے لگائیں
 
روحانی محفلوں میں لے کر جائیں
 
نیک لوگوں اور علمائے اہل سنت سے ملاقات کروائیں
 
ادب سکھائیں
 
سنت کے مطابق کھانا کھلائیں پانی پلائیں
 
یاد رکھیے!
یہ دنیا کی سب سے بڑی وراثت ہے جو آپ اپنی اولاد کو دے سکتے ہیں۔
 
 
مضمون نگار،خطیب و امام مدرسۃ المدینہ فیضان اعلی حضرت علی نگر آسنسول ہیں۔