Friday, June 06, 2025 | 10, 1446 ذو الحجة
  • News
  • »
  • عالمی منظر
  • »
  • غزہ میں انسانیت سسکیاں لے رہی ہے۔ دنیا تماشائی، بے بس لاچار اور فاقہ کشی پر مجبور شہری اپنا درد بیان کرنے سے قاصر

غزہ میں انسانیت سسکیاں لے رہی ہے۔ دنیا تماشائی، بے بس لاچار اور فاقہ کشی پر مجبور شہری اپنا درد بیان کرنے سے قاصر

Reported By: Munsif TV | Edited By: Mohammed Imran Hussain | Last Updated: Jun 04, 2025 IST     

image
 
سرزمین غزہ کو اسرائیل نے اتنا تباہ کردیا ہے کہ فلک بوس عمارتیں اب ملبہ کے ڈھیر میں تبدیل ہوگئیں۔ زندگیوں سے چہہچہاتا غزہ  اب موت کے سناٹے میں تبدیل ہوچکا ہے۔ نا پینے کےلئے پانی ہے اور ناہی کھانے کےلئے کھانا اور ناہی رہنے کےلئے مکان  ہے۔ یوں کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ غزہ   میں انسانیت سسکیاں لے رہی ہے۔ بے بس لاچار اور فاقہ کشی پر مجبور شہری اپنا درد بیان کرنے سے قاصر  ہیں۔ ایسا لگتا ہے ظلم پر دنیا خاموش تماشائی بنی ہے۔

غزہ نسل کشی کی ایک نئی تاریخ

غزہ کے حالات ساری دنیا کے سامنے بالکل آئینے کی طرح عیاں ہیں ۔ ایک طرف سرحدوں پر اسرائیل کا کنٹرول اور دوسری  طرف  لگاتار حملوں کے سلسلے نے غزہ پٹی میں نسل کشی کی ایک ایسی تاریخ رقم کی  ہے جس میں اب تک 16 ہزار سےزائد بچے جان گنواچکے ہیں اور پچاس ہزار سے زائد افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں۔ قریب سوا لاکھ افراد زخمی ہیں۔ اور لاکھوں لوگ بے گھر ہو گئے ہیں۔ افسوس کہ یہ سلسلہ اب تک رکا نہیں ۔ حد تو یہ ہوگئی ہے کہ اب نا تو اسپتال  بچے ہیں اور ناہی اسکول‘ اس پر بھی صہیونی حملوں نے غزہ کے شہریوں کی پنا گاہوں کو چھین لیا  اور غزہ کے شہری کھلے آسمان تلے بے یار و مدد گار اللہ کی مدد کے انتظار میں ہیں ۔ 

ظلم پردنیا خاموش!

ایک طرف اسرائیل کا روزانہ بڑھتا ہوا ظلم اور فلسطینی اراضی پر بڑھتے ہوئے قبضے ہیں تو دوسری طرف دنیا کی خاموشی نے غزہ کے بے بس لاچار اور فاقہ کش شہریوں کو  جو درد دیا ہے  اسکوکو وہ بیان کرنے سے بھی قاصر ہیں ۔ جب ظلم کی انتہا ہوجاتی ہے  تومظلوم کے دل سے نکلنے والی ہائے کبھی خالی نہیں جاتی ہے ۔ کہا جاتا ہے کہ مظلوم کے دل سے نکلنے والی ہائے اور اللہ کے درمیان کوئی پردہ نہیں ہوتا ۔ کیوں دنیا تماشا دیکھ رہی ہے؟ کیا عالم عرب یہ کوشش نہیں کرسکتا ہے کہ حملے پوری طرح رک جائیں اور غزہ اور فلسطینی میں  امداد و  بازآباد کاری انجام دی جائے ۔

 غزہ کے شہری بھوک سے مررہےہیں

اسرائیل نے ابتک  بموں اور میزائلوں کے حملوں سے جنگ چھیڑ کر قیامت صغری برپاکی تھی مگر اب بھوک والی ایک ایسی جنگ کو چھیڑا ہے جس میں غزہ کے شہری بھک مری سے ہی لقمہ اجل بن رہے ہیں انتہا یہ  ہے کہ غذائی امداد والے مراکز پر بھی اب اسرائیل کی فائرنگ ہورہی ہے جس میں اب تک درجنوں بھوکوں کی اموات واقع ہوئی ہیں اور یہ سلسلہ تھمتانظر نہیں آرہا ۔

 بھوکوں کوکھانےکا لالچ دیکر مارا جارہا ہے!

  اہل غزہ پر اب تک حماس کے نام پر حملے ہوتے تھے لیکن اب بھوکوں کو  کھانے کا لالچ دیکر چن چن کر ہلاک کرنے کا نیا طریقہ اپنا یا جارہا ہے۔  لیکن اب سوال یہ ہےکہ کیا فلسطینیوں کی زندگی اتنی سستی ہوگئی ہے ؟ عالم اسلام اور اور دنیا  کوئی بھی  اس بات کے خلاف آواز اٹھانے سے کیوں  کتراتے ہیں؟ ۔ ایک طرف غزہ ہیومینٹیرین فاؤنڈیشن امدادی کاموں میں جٹی ہے جس کا راست کنٹرول اسرائیل کے ہاتھ میں ہے جی ایچ ایف کے امریکی سربراہ جیک ووڈ نے  محض اپنے عہدے سے اس لئے استعفی دیدیا کہ امدادی تقسیم میں آزادی نہیں ہے بلکہ امداد پر اسرائلی فوج کنٹرول کررہی ہے ۔ یہ سوال پوچھنے سے جانے کیوں دنیا کو خوف محسوس ہوتا ہے کہ کیوں مسلح افواج کے نگرانی میں اور گولیوں کی بوچھار میں امداد تقسیم کی جارہی ہے ؟۔ کیا یہ واقعی امدادی مرکز ہے یا  پھر کھانے کا لالچ دلاکر ہلاک کرنے کا موقع تلاش کرنے کی ایک حکمت عملی ہے ؟ ۔

ہلاک کرنے کا ایک اور طریقہ!

 یاد ہے کہ اس سے  پہلے بھی یو این او نے جی ایچ ایف کے ساتھ کام کرنے سے  اس لئے انکار کردیا تھا کہ امدادی  تقسیم میں جانب داری سے  کام لیا جارہا ہے۔یو این او نے  امدادی مراکز پر فلسطینیوں کے ہلاکت کی جانچ کی  بات کہی ہے  یہی وہ غزہ ہے جو کبھی فلسطینیو ں کی زندگیوں سے آباد تھا اور اب غزہ کے ویرانے اسرائیلی بربریت کی داستاں چیخ چیخ کر بیان کررہے ہیں۔ اسرائیل  غزہ اور فلسطین کے تمام سرحدوں پر اپنا کنٹرول کرکے امدادی ٹرکوں کو روک رہا ہے۔ جو امداد غزہ کو پہنچانا چاہتے ہیں ان کی راہوں میں بھی اسرائیل روکاٹیں پیدا کرتا ہے ۔ یہاں تک کے سرحد پر کئی امدادی ٹرکوں  کوکئی دن تک روکے رکھا اور پھر یوں ہوا کہ اس میں موجود تمام غذائیں سڑکر کھانے کے قابل نہیں رہیں۔ عجب ہے کہ اسرائیل کو کھانے پینے کے امدادی سامان میں بھی ہتھیار ہی دکھائی دیتے ہیں ۔ 

غزہ میں انسانیت سسکیاں لے رہی ہے

اس پورے معاملہ میں انسانیت کہیں دم توڑتی نظر آرہی ہے۔ اسرائیل نا خود مدد کرتا ہے اور ناہی کسی مدد کرنے والے کو مدد کرنے کا موقع دیتا ہے ایسے میں غزہ کے شہری  کہیں گھاس کھانے کو مجبور ہیں تو کہیں خالی پیٹ صبر کرتے ہوئے مدد کا انتظار کررہے ہیں۔ تمام حالات کو دیکھتے ہوئے لگتا ہے  غزہ میں انسانیت سسکیاں لے رہی ہے پھر بھی کسی کے ضمیر میں کوئی ہلچل پیدا نہیں ہورہی ہے۔ یہ موت کا کھیل جو600 سے زائد دنوں سے جاری ہے  نہ جانے کب ختم ہوگا؟