آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے صدربیرسٹراسد الدین اویسی نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ کے تازہ احکامات محض ایک عارضی فیصلہ ہے۔اور وہ چاہتے ہیں کہ عدالت عظمیٰ اس متنازعہ قانون پر حتمی فیصلہ سنائے ،اور سماعت فوری شروع کرے۔انہوں نے کہا کہ موجودہ قانون کے تحت وقف جائیدادوں کا تحفظ ممکن نہیں ہوگا، ۔بلکہ قابضین فائدے میں رہیں گے ۔اور وقف جائیدادوں کی ترقی رک جائے گی۔اے آئی ایم آئی ایم کے صدر اور رکن پارلیمنٹ اسد الدین اویسی نے اپنی امید ظاہر کی کہ سپریم کورٹ وقف ایکٹ پر جلد ہی کوئی حتمی فیصلہ سنائے گی، موجودہ فیصلے کو عبوری حکم قرار دیا ہے۔انہوں نے پی ایم مودی حکومت کے ایکٹ پر تنقید کرتے ہوئے الزام لگایا کہ یہ وقف املاک کا تحفظ نہیں کرتا اور اس کے بجائے تجاوزات کی حوصلہ افزائی کرے گا۔انہوں نے مطالبہ کیا کہ بی جے پی حکومت ان لوگوں کی تعداد کا ڈیٹا فراہم کرے جنہوں نے اسلام قبول کرنے کے بعد اپنی جائیداد وقف کو دی ہے۔
اویسی نے مرکز پر وقف بورڈ کو کمزور کرنے کا الزام لگایا
اے آئی ایم آئی ایم کے سربراہ نے آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا (اے ایس آئی) ایکٹ کے سیکشن 3 ڈی کے بارے میں تشویش کا اظہار کیا، اور دعویٰ کیا کہ اسے اسپیکر نے متعارف کرایا تھا جب کہ اس پر بحث جاری تھی۔اویسی نے یہ بھی استدلال کیا کہ وقف بورڈ کے ارکان کے طور پر غیر مسلموں کو مقرر کرنا آئین کے آرٹیکل 26 کی خلاف ورزی کرتا ہے، جو مذہبی امور کو سنبھالنے کی آزادی سے متعلق ہے۔ انہوں نے حکومت پر الزام لگایا کہ وہ وقف بورڈ کو کمزور کرنے اور اس کی جائیدادوں کے تحفظ کو روکنے کی کوشش کر رہی ہے۔
آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت نے کیا خیر مقدم
آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت (اے آئی ایم ایم ایم) کے کارگزار صدر نوید حامد نے وقف ترمیمی قانون پر سپریم کورٹ کے عبوری حکم کا خیر مقدم کیا۔انہوں نے اس فیصلے کو ایکٹ کی غیر آئینی دفعات کے لیے فیصلہ کن دھچکا قرار دیا، جس کا ان کا دعویٰ ہے کہ پی ایم مودی حکومت نے پارلیمانی اکثریت کے بہانے اسے نافذ کیا تھا۔
عارضی روک خوش آئند
تلنگانہ حکومت کے مشیر محمد علی شبیر نے سپریم کورٹ کی جانب سے وقف ترمیمی ایکٹ 2025 کی چند متنازع دفعات پر عارضی روک کو خوش آئند قرار دیا ۔اور کہا کہ تازہ عدالتی احکام اقلیتی برادری اور سماجی تنظیموں کے خدشات کی توثیق ہیں۔ محمد علی شبیر، بھی متنازعہ وقف قانون کے خلاف دائر پی آئی ایل کے اہم فریق ہیں، ۔۔انہوں نے اپنے بیان میں کہا کہ عدالتِ عظمیٰ کا فیصلہ مسلمانوں کے آئینی حقوق اور وقف اداروں کی خودمختاری کے تحفظ میں ایک اہم پیش رفت ہے۔شبیر علی نے واضح کیا کہ اگرچہ عدالت نے پورے قانون پر روک نہیں لگائی۔لیکن دی گئی عبوری راحت علامتی نہیں بلکہ عملی ہے، اور یہ اس بات کا اعتراف ہے کہ قانون میں کچھ دفعات واقعی غیر آئینی ہیں۔ تلنگانہ وقف بورڈ نے بھی فیصلہ کا خیر مقدم کیا ہے۔
واضح رہےکہ سپریم کورٹ نے وقف ترمیمی ایکٹ پر اہم فیصلہ سنایا ہے۔ چیف جسٹس آف انڈیا نے واضح کیا کہ پورے قانون پر روک لگانے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔لیکن دو بڑی دفعات کو فی الحال معطل کر دیا گیا ہے۔پہلا فیصلہ یہ ہے کہ کلکٹر کے پاس یہ اختیار نہیں ہوگا کہ وہ یہ طے کرے کہ کوئی جائیداد وقف ہے یا نہیں۔ دوسرا فیصلہ یہ ہے کہ وہ شِق جس میں یہ شرط رکھی گئی تھی کہ کسی شخص کو وقف بورڈ کا رکن بننے کے لیے کم از کم پانچ سال اسلام پر چلنے کا ثبوت دینا ہوگا، ۔۔اسے عدالت نے من مانی اور غیر معقول قرار دیا۔