• News
  • »
  • تعلیم و روزگار
  • »
  • کواڈ فیلو ادھیراج بھگت شہری، دفاعی اور خلائی مقاصد کے لیے مؤثر ایرو اسپیس ٹیکنالوجی کو فروغ دینے کی امریکی۔ ہندوستانی کوششوں میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔

کواڈ فیلو ادھیراج بھگت شہری، دفاعی اور خلائی مقاصد کے لیے مؤثر ایرو اسپیس ٹیکنالوجی کو فروغ دینے کی امریکی۔ ہندوستانی کوششوں میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔

Reported By: Munsif News Bureau | Edited By: Sahjad Mia | Last Updated: Aug 10, 2025 IST     

image
 

ظہور حسین بھٹ
 

ادھیراج بھگت 2024 میں ہندوستان سے کواڈ فیلوشپ کے لیے چنے جانے والے کواڈ  فیلو ہیں جو  جارجیا ٹیک  کے بین ٹی زِن کمبسٹن لیباریٹری میں  آواز کی رفتار سے پانچ گنا یا اس سے بھی زیادہ تیز رفتار طیّاروں کو زیادہ تیز اوران کی کارکردگی کو مزید بہتر بنانے پر کام کررہے ہیں۔ ان کی ڈوکٹورل تحقیق کا محور سوپر سونک کمبسٹن (ایندھن جلنے کا عمل ) کو بہتر بنانا ہے ۔ ایسا کرنا شہری ، دفاعی اور خلائی تحقیق کے شعبوں کے لیے مفید ہو سکتا ہے۔ سوپر سونک سے مراد وہ رفتار ہے جو آواز کی رفتار (ماخ اوّل)سے بھی زیادہ ہو۔ جب کہ ہائپر سونک عام طور پر اس رفتار کو کہتے ہیں جو  ماخ اوّل سے بھی زیادہ ہو۔ بھگت کا کام سوپر سونک کمبسٹن کے عمل کو بہتر بنانے پر مرکوز ہے جو ہائپر سونک پرواز کے حصول کی جانب ایک اہم قدم ہے۔ 
 
 ایک ٹیسٹ انجینئر اور طالب علم پائلٹ کی حیثیت سے، بھگت ایرو اسپیس کے سیّال مادّوں اور ایندھن جلنے کے عمل سے متعلق اپنی تحقیق میں قیمتی عملی تجربہ شامل کرتے ہیں۔کواڈ فیلوشپ کے ذریعے، بھگت نئی نسل کے اُن ماہرین میں شامل ہو رہے ہیں جو کواڈ ممالک کے درمیان تعلقات کو مزید مضبوط بنا رہے ہیں۔ وہ اپنی تحقیق کو ایک مشترکہ مشن کا حصہ سمجھتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں ’’ کواڈ ممالک خلائی جستجو اور ہوابازی کی تکنیک کو ترجیح دے رہے ہیں ۔ میرا پروجیکٹ نقل و حمل کو زیادہ تیز اور مؤثر بنانے، اور خلا اور دفاعی ٹیکنالوجی میں تعاون کو مضبوط کرنے میں مدد دے رہا ہے۔‘‘
 

پیش خدمت ہیں ان سے انٹرویو کے چند اقتباسات:

 
کیاآپ ایرو اسپیس سیّال  اور ایندھن جلنے سے متعلق اپنی تحقیق کے  مرکز پر مختصر روشنی ڈالیں گے؟ آپ کی تحقیق کے شہری اور دفاعی شعبوں میں  کیا کیا ممکنہ فوائد ہیں؟
 
میری تحقیق کا اصل موضوع سوپرسونک بہاؤ یعنی آوازسے بھی تیز رفتار سے ہوا کے بہاؤ میں آگ کے شعلوں کومستحکم کرنے سے متعلق ہے۔ ہم ایک کلو میٹر فی سیکنڈ کی رفتار سے چل رہے بہاؤکو لیتے ہیں اوراحتراق خانہ میں ملی سیکنڈ کے حصوں میں یہ وقت گزارتا ہے اسے لیتے ہیں اور پھر ایسے ایندھن اس میں ملاتے ہیں جس سے کافی پیچیدہ کیمیائی تعاملات ہوتے ہیں جس کے نتیجہ میں ایندھن موثر طریقہ سے پورا پورا جل جاتا ہے۔
 
ہمارے  تجربے کی وجہ سے ہوا اور ایندھن کا مرکب ایک  بھنور کی شکل اختیار کرلیتا ہے جس سے شعلے اپنی جگہ قائم رہتے ہیں وہ بھی بغیر کسی شعلہ دان کے۔ آج کل کی موجودہ ٹیکنالوجیوں میں شعلہ دان ایک جزو لاینفک ہے مگراس سے ایندھن کم موثر ہوجاتا ہے۔ ہمارے تجربے میں شعلہ ایک گھومتے ہوئےآگ کے گولے کی مانند ظاہر ہوتا ہے۔ اس کی وجہ سے احتراق کے آلہ کی کارگردگی میں اضافہ ہوتا ہے۔یہ ٹیکنالوجی شہری ہوا بازی ،فوجی طیّاروں اور خلائی  مہمات میں استعمال ہونےوالے اسکریم جیٹ انجنوں میں کارآمد ثابت ہو سکتی ہے۔ مزید برآں ،ہم یہ بھی پتہ لگانے کی کوشش کررہے ہیں کہ آیا یہ دباؤ گین احتراق کی طرح  بھی کام کرسکتا ہے ، تاکہ یہ موجودہ نظاموں پر سبقت لے جا سکے۔ 
 
اپنی تحقیق سے آپ کون کون سے اہم سائنسی اورتکنیکی مسائل کا حل تلاش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں؟
 
ہم اپنی تحقیق کے ذریعہ سے جن سوالات کے جوابات حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ان میں” سوپرسونک احتراق کس طرح مزید مؤثر،معتبراورقابل رسائی بنا یا جاسکے “؟ اس کی بہت زیادہ قیمت ہونے کی وجہ سے یہ اب تک صرف فوجی استعمال تک ہی محدود ہے۔ ان مسائل کا حل تلاش کرکے ہم شہری ہوا بازی اور خلائی طیّاروں میں اس کے استعمال کے دروازہ کھول رہے ہیں۔
 
آپ کی تحقیق کواڈ ممالک، بالخصوص امریکہ اور ہندوستان کی ایرواسپیس صلاحیتوں کو کس طرح مزید آگے بڑھا سکتی ہے؟
 
میں ایک کمبسشن انجینئر ہوں اور میری نظر میں احتراق خانہ انجن کا دل ہوتاہے۔ لیکن خیال رہےکہ یہ بہت سے نظاموں کا محض ایک حصہ ہی ہےجو کہ ایک ساتھ مل کام کرتے ہیں۔ اگریہ ٹیکنالوجی کارآمد ثابت ہوتی ہے تو پھر انجن کوازسرنوڈیزائن کرنا پڑے گا اورنئےقسم کےسوپرسونک جہاز تیارکرنے پڑیں گے۔ اس قسم کے کام کے لیے تنظیموں اور ممالک کے درمیان تعاون ناگزیر ہے۔امریکہ اور ہندوستان دونوں ممالک ایرواسپیس تحقیق کے شعبہ میں قائدانہ کردار ادا کررہے ہیں اور ممکن ہے کہ ان دونوں ممالک کے تحقیقی ادارے یا کارپوریٹ تحقیق اور ترقی کے ذریعہ سے یہ اور قریب آئیں۔ امریکہ کی بہت سی ایرواسپیس کمپنیاں ہندوستان  میں کام کررہی ہیں، لہٰذا تعاون ہی کلید ہے۔ ہندوسستانی خلائی تحقیق تنظیم )اسرو،(دفاعی تحقیق اور ترقی تنظیم)  ڈی آر ڈی او،(ہندوستان ایروناٹکس لمیٹد)ایچ اے ایل(اوردفاعی شعبہ میں ابھرتی ہوئی دیگر نجی تنظیمیں بھی عالمی سطح پراپنے کردار کو مزید بہتر بنا سکتی ہیں۔
 
کواڈ فیلو شپ نے کس طرح آپ کے نیٹ ورک کو وسعت دینے میں یا فیلوشپ سائنس اور ٹیکنالوجی میں بین الاقوامی تعاون کے متعلق آپ کی رائے پر کس طرح اثر انداز ہوئی؟
 
کواڈ فیلو شپ کی بدولت مجھے واشنگٹن ڈی سی میں  پالیسی سازوں اور سائنسی مشیروں سے تبادلہ خیال کا موقع ملا۔ ان میں سے اکثر کے پاس پی ایچ ڈی کی ڈگری تھی مگر اب وہ اسٹیم )سائنس ،ٹیکنالوجی ،انجینئرنگ اورریاضی(میں پالیسی سازی کا کردار ادا کررہے ہیں۔ ان کے تجربے سے معلوم ہوا کہ کس طرح تکنیکی علم بین الاقوامی پالیسی تعاون میں کام آسکتا ہے۔ مجھے اس سے یہ بھی ادراک ہوا کہ کس طرح پالیسی سائنسی ترقی میں اہم کردار ادا کرسکتی ہے۔ایرواسپیس کے شعبہ میں اختراع پردازی یقیناً عالم گیر کردار کی حامل ہے، اس لیے  ایرواسپیس شعبہ  میں نئے خیالات کے وسیع تر اثرات مرتب ہونے کے لیے پالیسی ناگزیر ہے۔
 
آپ کاتجربہ  وسیع ہے۔ اس کی روشنی میں آپ کے مطابق پالیسی کی سطح پر کون کون سی تبدیلیاں لا ئی جانی چاہییں جس سے امریکہ اور ہندوستانکےدرمیان ایرواسپیس کے شعبہ میں مشترکہ تحقیق اور ترقی بہتر ہوسکے؟
 
گوکہ ہندوستان اور امریکہ دونوں ہی ممالک ایرواسپیس کے شعبہ میں زبردست تحقیقات میں مصروف ہیں پھر بھی اس میدان میں ادارہ جاتی یا پراجیکٹ کی سطح پر  بین الاقوامی تعاون کی کمی کھلتی  ہے۔ایرواسپیس کی زیادہ تر تحقیقات جیسے  احتراق،پروپلشن، ڈھانچے اور کنٹرول ابھی اپنے ابتدائی دورمیں ہی ہیں۔اگر حکومتی ادارےاور جامعات مشترکہ پراجکٹوں کی شروعات سے ہی امداد کریں،اور ادارے خود بھی اسی قسم کے منصوبوں پر کام کریں تو اس سے جیسے جیسےٹیکنالوجی میں سدھار آتا جائےگا ویسے ویسے اشتراک کی راہیں ہموار ہوتی جائیں گی۔ گریجویٹ تبادلہ پروگرام یا اسٹڈی ایبروڈ پروگرام کو وسیع کرنے سے بھی اسٹیم میدانوں میں تحقیقی خلاء کوپُر کیا جاسکتا ہے۔
 

بشکریہ اسپَین میگزین، امریکی سفارت خانہ، نئی دہلی