فریدآباد ضلع انتظامیہ نے الفلاح یونیورسٹی کی زمینوں کی گہرائی سے جانچ پڑتال کے احکامات جاری کیے ہیں۔ دھوج گاؤں میں واقع اس یونیورسٹی کی زمین تقریباً 78 ایکڑ پر پھیلی ہوئی ہے اور اب انتظامیہ یہ معلوم کرنے میں مصروف ہے کہ اس زمین کا کتنا حصہ استعمال ہو رہا ہے اور کتنا خالی پڑا ہے۔ اس کے لیے پٹواری یونیورسٹی کی زمین کی پیمائش کر رہے ہیں اور زمین کی لمبائی، چوڑائی اور جن جگہوں پر عمارتیں بنی ہیں، اس کا مکمل حساب کتاب تیار کیا جا رہا ہے۔
صرف زمین کی پیمائش ہی نہیں، بلکہ انتظامیہ یہ بھی معلوم کرنے کی کوشش کر رہی ہے کہ یہ زمین کس سے اور کس قیمت پر خریدی گئی تھی۔ یونیورسٹی نے زمین خریدنے میں کس کس کو پیسے دیے اور کتنے دیے، اس کا بھی مکمل ریکارڈ کھنگالا جا رہا ہے۔
قابل ذکر ہے کہ دہلی کے لال قلعہ کے قریب 10 نومبر کو ہونے والے کار بم دھماکے نے ملک کو ہلا کر رکھ دیا۔ اس دھماکے میں 10 افراد ہلاک ہو گئے اور کئی لوگ شدید زخمی ہوئے۔ دھماکے کی تحقیقات میں ہریانہ کے فریدآباد ضلع میں واقع الفلاح یونیورسٹی کا نام سامنے آیا۔ بتایا جا رہا ہے کہ یونیورسٹی کے ہسپتال میں کام کرنے والے کچھ ڈاکٹر، جن میں جموں و کشمیر سمیت دیگر مقامات کے لوگ شامل تھے، ملک بھر میں کئی دھماکے کرنے کی منصوبہ بندی کر رہے تھے۔
اس معاملے کو سنجیدگی سے لیتے ہوئے مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ کی صدارت میں اعلیٰ سطحی اجلاس منعقد ہوا۔ اجلاس میں 10 نومبر کو ہونے والے دھماکے کی تحقیقات کی پیش رفت کا ڈیڑھ گھنٹے تک جائزہ لیا گیا۔ اس کے بعد ای ڈی اور دیگر مالیاتی تحقیقات ایجنسیوں کو بھی ہدایت دی گئی کہ وہ ہریانہ میں واقع اس یونیورسٹی کے مالی لین دین کی گہرائی سے جانچ کریں۔ اس سلسلے میں جمعہ کو ضلع انتظامیہ نے احکامات جاری کرتے ہوئے یہ معلوم کرنے کو کہا ہے کہ یونیورسٹی کی زمین کا کتنا حصہ استعمال کیا جا رہا ہے۔ ساتھ ہی اس سے متعلق لین دین کو بھی کھنگالنے کا حکم دیا ہے۔
بتا دیں کہ یونیورسٹی تقریباً 78 ایکڑ پر پھیلی ہوئی ہے۔ 2014 میں یونیورسٹی بننے سے پہلے، الفلاح فاؤنڈیشن نے 1997 میں ایک انجینئرنگ کالج قائم کیا۔ میڈیکل کی تعلیم کا آغاز 2016 میں ہوا۔ پہلا بیچ 2019 میں آیا، اور پیرامیڈیکل کورسز بھی بعد میں متعارف کرائے گئے۔ آخری انجینئرنگ کالج 2021 میں یہاں واقع تھا، جس کے بعد داخلہ بند کر دیا گیا۔