غزہ میں جنگ بندی نافذ العمل ہے۔معاہدہ کے تحت اسرائیل اور حماس کے درمیان یرغمالیوں اورقیدیوں کا تبادلہ بھی عمل میں آ چکا ہے۔تاہم اس دوران امریکی وزیر خارجہ نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اسرائیلی پارلیمنٹ کےمغربی کنارے کے الحاق سے متعلق اٹھائے گئےاقدام کو امن معاہدہ کے لیے خطرہ قرار دیا ہے۔
کیا ہے پورامعاملہ؟
بدھ 22 اکتوبر کو اسرائیلی پارلیمنٹ نے چار مراحل پر مشتمل بل کے پہلے مرحلےکو منظوری دی ، جس کا مقصد مغربی کنارے کے مقبوضہ علاقے پر اسرائیلی قانون کا نفاذ ہے۔ یہ ان علاقوں کے الحاق کے مترادف ہے جنھیں فلسطینی اپنی ریاست کے قیام کے لیے چاہتے ہیں۔بل کے حق میں 25 ووٹ آئے جبکہ مخالفت میں 24 ووٹ ڈالے گئے۔
اسی درمیان ایک اور بل بھی منظور کیا گیا جو معالیہ ادومیم نامی بستی کو ضم کرنے سے متعلق تھا، جو 31 کے مقابلے میں 9 ووٹوں سے منظور ہوا۔
اگر چہ نیتن یاہو نے اس بل کی مخالفت کی ،لیکن انکے اتحادی جماعتوں کے اراکین نے بل کے حق میں ووٹ دیا۔اس دوران نیتن یاہو کی لیکیوڈ پارٹی کے زیادہ تر ارکان یا تو پارلیمنٹ سے غیر حاضر رہے یا پھر ووٹ نہیں دیا،وہیں ایک ممبر یولی ایڈلسٹین نےنیتن یا کے خلاف جاکر بل کے حق میں ووٹ دیا۔
واضح رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یہ بیان دیا تھا کہ وہ اسرائیل کو مقبوضہ مغربی کنارے الحاق کی اجازت نہیں دیں گے۔مگر جب اس بل کے پہلے مرحلہ کو پارلیمنٹ سے اجازت مل رہی تھی تو اس دوران امریکی نائب صدر جے ڈی وینس اسرائیلی دورے پر ہی تھے۔
امریکی وزیر خارجہ نے الحاق کے حوالے سے انتباہ جاری کیا:
امریکی وزیر خارجہ نے اسرائیلی پارلیمنٹ کے اس اقدام کو غزہ امن معاہدے کے لیے خطرہ قرار دیا۔روبیو نے کہا کہ امریکی صدر نے پہلے ہی واضح کر دیا ہے کہ وہ اس (الحاق) کی حمایت نہیں کر یں گے۔روبیو نے کہااسرائیلی ایک جمہوری ملک ہیں، لیکن اس وقت، یہ ایسی چیز ہے جو ہماری سوچ میں الٹا ثابت ہو سکتی ہے۔انہوں نے یہ بیان اسرائیل جانے کے لیے ہوائی جہاز میں سوار ہونے سے پہلے دیا۔ انہوں نے کہا کہ الحاق کے اقدامات امن معاہدے کے لیے خطرہ ہیں۔
اسرائیلی موقف:
اسرائیل کے مطابق سن 1967 کی جنگ میں قبضے کیے گئے علاقے پر انکا حق ہے۔نیتن یاہو حکومت نے مغربی کنارے کو الحاق کرنے پر غور کیا تھا، تاہم امریکی صدر ٹرمپ کی مخالفت کے بعد اس منصوبے کو روک دیا ۔لیکن بعد ازیں اسے ایوی ماعوز نے پیش کیا، جو انتہائی دائیں بازو کی پارٹی "نعام" کے سربراہ ہیں۔بل کو 25-24 ووٹوں سے حمایت ملی۔ یہ اقدام دو ریاستی حل میں رکاوٹ بن سکتا ہے۔
حماس سمیت عرب ممالک نےکی مذمت:
اسرائیلی قانون ساز کے اس اقدام کی مذمت کرتے ہوئے عرب ممالک نےعالمی قوانین کی خلاف ورزی قرار دیا۔جبکہ حماس نے ایک بیان میں کہا کہ مغربی کنارے اور معالیہ ادومیم سے متعلق اسرائیلی قانون ساز کا یہ عمل نا قابل قبول ہے۔اسرائیل کی یہ کوششیں باطل اور غیر قانونی ہیں۔
واضح رہے کہ اقوامِ متحدہ نے انہیں واضح طور پر مقبوضہ علاقہ قرار دیا ہے۔2024 میں اقوامِ متحدہ کی عالمی عدالتِ انصاف نے اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ اسرائیل کا فلسطینی علاقوں پر قبضہ اور وہاں کی بستیاں غیر قانونی ہیں، اور اسرائیل کو چاہیے کہ وہ فوری طور پر یہ قبضہ ختم کرے۔