پاکستان میں ایک بار پھر جعفر ایکسپریس ٹرین پر حملہ ہوا ہے۔ یہ حملہ 7 اکتوبر منگل کو سندھ بلوچستان سرحد کے قریب سلطان کوٹ کے علاقے میں ہوا۔معلومات کے مطابق پٹریوں کو دھماکہ خیز مواد سے اڑا دیا گیا جس سے کوئٹہ جانے والی ٹرین کی کئی بوگیاں پٹری سے اتر گئیں۔اس واقعے میں متعدد افراد کے زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں۔ یہ واضح نہیں ہوا ہے کہ اس معالہ میں اب تک کسی کی موت ہوئی ہے یا نہیں؟جب یہ حملہ ہوا اس وقت یہ ٹرین پشاور کی طرف جارہی تھی ،خیال رہے کہ جعفر ایکسپریس کو پہلے بھی ٹارگٹ کرکے ہائی جیک کیا جا چکا ہے۔
سیکیورٹی فورسز نے علاقے کو گھیرے میں لیا:
اطلاعات کے مطابق بم دھماکے کے بعد سیکیورٹی فورسز اور پولیس نے علاقے کو گھیرے میں لے لیا ہے۔ پٹریوں کا معائنہ کرنے کے لیے بم اسکواڈ کو تعینات کیا گیا ہے۔ کوئٹہ اور پشاور کے درمیان چلنے والی جعفر ایکسپریس کو حالیہ مہینوں میں متعدد بار نشانہ بنایا گیا ہے۔اس سال مارچ میں بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) کے عسکریت پسندوں نے بولان پاس پر جعفر ایکسپریس کو ہائی جیک کر کے 400 سے زائد مسافروں کو یرغمال بنا لیا تھا۔حملے کے دوران ریلوے ٹریک کو دھماکہ خیز مواد سے اڑا دیا گیا۔ عسکریت پسندوں اور سیکورٹی فورسز کے درمیان ہونے والی فائرنگ کے تبادلے میں متعدد افراد مارے بھی گئے تھے۔جعفر ایکسپریس سندھ اور بلوچستان کے درمیان سرحدی علاقے سے گزرتی ہے، جس سے مسافروں کی حفاظت کے لیے خدشات پیدا ہوتے ہیں۔
جعفر ایکسپریس حملہ کی زد میں ہے۔
اس سے قبل 7 اگست کو بلوچستان کے سبی ریلوے اسٹیشن کے قریب ایک ٹرین بال بال بچ گئی تھی، جہاں ٹرین کے گزرنے کے کچھ ہی دیر بعد پٹریوں کے قریب نصب بم پھٹ گیا تھا۔ ایک اور واقعے میں، 4 اگست کو بندوق برداروں نے کولپور کے قریب ایک انجن کو نشانہ بناتے ہوئے فائرنگ کی۔ حملے کی ذمہ داری بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) نے قبول کی تھی۔
جب جعفر ایکسپریس کو ہائی جیک کیا گیا:
جعفر ایکسپریس پاکستان میں پشاور اور کوئٹہ کے درمیان چلتی ہے۔ اس سال کے شروع میں مارچ میں اسے بلوچ لبریشن آرمی (BLA) نے ہائی جیک کر لیا تھا۔ یہ واقعہ پاکستان کی ریلوے کی تاریخ میں سنگین سیکورٹی لیپس اور اندرونی تنازعات کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ واقعے کے دوران بی ایل اے کے مسلح جنگجوؤں نے 400 سے زائد مسافروں کو یرغمال بنا لیا تھا۔