نئی دہلی:اتراکھنڈ میں آج سے یکساں سول کوڈ نافذ ہو گیا ہے۔ ایسا کرنے سے نہ صرف شہریوں کی مذہبی آزادی پر حملہ ہوا ہے بلکہ یہ قانون مکمل طور پر تعصب پر مبنی ہے۔ جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا ارشد مدنی کی رہنمائی میں جمعیۃ علماء ہند اس فیصلے کو نینیتال ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ دونوں میں چیلنج کرے گی۔ جمعیۃ علماء ہند کے وکلاء نے اس قانون کے آئینی اور قانونی پہلوؤں کا بغور جائزہ لیا ہے۔ تنظیم کا خیال ہے کہ چونکہ یہ قانون امتیازی سلوک اور تعصب پر مبنی ہے اس لیے اسے یکساں سول کوڈ نہیں کہا جا سکتا۔ ایک اور اہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ریاستی حکومت کو ایسا قانون بنانے کا حق ہے؟
ریاستی حکومت کے اتراکھنڈ میں یکساں سول کوڈ کے نفاذ کے فیصلے پر صدر جمعیۃ علماء ہند مولانا ارشد مدنی نے سخت ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ ہم کسی ایسے قانون کو قبول نہیں کرسکتے جو شریعت کے خلاف ہو، کیونکہ مسلمان ہر چیز سےسمجھوتا کرسکتا ہے۔ لیکن اپنی شریعت سے کوئی سمجھوتانہیں کر سکتا۔ انہوں نے کہا کہ اتراکھنڈ میں آج نافذ کردہ یکساں سول کوڈ قانون میں درج فہرست قبائل کو ہندوستانی آئین کی دفعہ 366، شق 25 کے تحت استثنیٰ دیا گیا ہے اور یہ دلیل دی گئی ہے کہ ان کے حقوق کا تحفظ آئین کے آرٹیکل 21 کے تحت کیا گیا ہے۔
انہوں نے سوال اٹھایا کہ اگر آئین کی ایک دفعہ کے تحت درج فہرست قبائل کو اس قانون سے باہر رکھا جا سکتا ہے تو ہمیں آئین کے آرٹیکل 25 اور 26 کے تحت مذہبی آزادی کیوں نہیں دی جا سکتی جو شہریوں کے بنیادی حقوق کو تسلیم کرتی ہیں۔ مذہبی آزادی کی ضمانت دی گئی ہے۔ چنانچہ اگر اس طرح دیکھا جائے تو یونیفارم سول کوڈ بنیادی حقوق کی نفی کرتا ہے۔ اگر یہ یکساں سول کوڈ ہے تو پھر شہریوں میں یہ امتیاز کیوں ہے۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ ہماری قانونی ٹیم نے اس قانون کے قانونی پہلوؤں کا جائزہ لیا ہے اور جمعیت علمائے ہند اس فیصلے کو بیک وقت نینیتال ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں چیلنج کرے گی۔ سچ تو یہ ہے کہ کسی بھی مذہب کے پیروکار اپنے مذہبی معاملات میں کسی قسم کی بے جا مداخلت برداشت نہیں کر سکتے۔ انہوں نے کہا کہ ہندوستان جیسے کثیر المذہبی ملک میں جہاں مختلف مذاہب کے پیروکار صدیوں سے مکمل آزادی کے ساتھ اپنے مذہبی عقائد پر عمل پیرا ہیں، وہیں یکساں سول کوڈ آئین میں شہریوں کو دیے گئے بنیادی حقوق سے متصادم ہے۔ سوال مسلمانوں کے پرسنل لاء کا نہیں ہے بلکہ ملک کے سیکولر آئین کو برقرار رکھنے کا ہے، کیونکہ ہندوستان ایک سیکولر ملک ہے اور آئین میں سیکولرازم کا مطلب یہ ہے کہ اس ملک کا اپنا کوئی مذہب نہیں ہے، اس لیے یکساں سول کوڈ۔ مسلمانوں پر لاگو نہیں ہے یہ معاشرے کے لیے ناقابل قبول ہے اور ملک کے اتحاد اور سالمیت کے لیے بھی نقصان دہ ہے۔