انٹرنیشنل وزیٹر لیڈرشپ پروگرام سے فیض یافتہ فُلبرائٹ۔نہرو اسکالرمدھوچندا گھوش اس مضمون میں ہند۔بحرالکاہل خطے کے مسائل، امریکہ۔ہند۔جاپان سہ فریقی تعاون اور ان تجربات پر گفتگو کرتی ہیں جن کی بدولت ان کی عالمی امور کی سمجھ بوجھ پروان چڑھی۔
ڈاکٹرسیّد سلیمان اختر
مدھوچندا گھوش، جو امریکی محکمۂ خارجہ کے انٹرنیشنل وزیٹر لیڈرشپ پروگرام(آئی وی ایل پی ) اور فلبرائٹ۔نہرو اسکالر ہیں، نے اپنی پیشہ ورانہ زندگی ہند۔ بحرالکاہل خطے پر اثر انداز ہونے والے تزویراتی رجحانات کے مطالعے کے لیے وقف کی ہے۔ کولکاتہ کی پریزیڈینسی یونیورسٹی کی اسسٹنٹ پروفیسر ہونے کے ناتے وہ بین الاقوامی تعلقات میں اپنی مہارت کو جاپان کی خارجہ پالیسی اور اس کے ایک سرگرم درمیانی طاقت کے طور پر ابھرتے ہوئے کردار میں گہری دلچسپی کے ساتھ منسلک کرتی ہیں۔ ان کی تحقیق اس بات کو اجاگر کرتی ہے کہ جاپان کی شمولیت، ’’کواڈ‘‘جیسے محدود رکنیت پر مبنی شراکتی فورمس، اور ہندوستان کی بدلتی ہوئی اسٹریٹجک حکمتِ عملی کس طرح خطے کے نظم و نسق کو نئی شکل دے رہے ہیں۔ انہوں نے ۲۰۱۸ءمیں امریکہ خارجہ پالیسی اور فیصلہ سازی کے موضوع پر منعقد انٹرنیشنل وزیٹر لیڈرشپ پروگرام میں شرکت کی اور انہیں ۲۰۲۲ء میں فلبرائٹ۔ نہرو اکیڈمک اینڈ پروفیشنل ایکسیلنس فیلوشپ ملی جس کے دوران وہ ہارورڈ یونیورسٹی کے ایشیا سینٹر میں قیام پذیر رہیں۔
مدھوچندا گھوش اپنے اب تک کہ سفر کا جائزہ لیتے ہوئے بتاتی ہیں کہ ان کی عالمی امور میں دلچسپی کا آغاز ہائی اسکول کے زمانے ہی میں ہوگیا تھا جب انہوں نے بین الاقوامی تعلقات اور مختلف ثقافتوں کی تفہیم میں دلچسپی لینا شروع کی۔ ان کے لیے ۲۰۲۲ء میں وہ فیصلہ کن لمحہ آیا جب جاپانی سفارت خانہ نے انہیں جاپان میں منعقدہ ساؤتھ ایشین یوتھ فورم میں ہندوستان کی نمائندگی کے لیے چنا۔ یہ موقع ان کی بین الاقوامی دلچسپیوں اور نظریاتی سفر میں ایک اہم سنگ میل ثابت ہوا۔ ٹوکیو میں قیام کے دوران، مدھوچندا گھوش کو شاہی محل میں شہزادہ آکیشینو اور ان کی اہلیہ سے ملاقات کا موقع ملا۔ ان کے بچپن کے ثقافتی تجربات،خصوصاً اُن کے والد کشور گھوش کے جاپان میں ستار کے کنسرٹس(موسیقی کی محفلیں) کے لیے سالانہ سفر،نے ان میں جاپانی زبان سیکھنے کی رغبت پیدا کی اور بالآخر وہ ہند۔جاپان تعلقات پر ڈاکٹریٹ کی تحقیق کی جانب مائل ہوئیں۔
پیش ہیں مدھوچندا گھوش کے ساتھ بات چیت کے اقتباسات:
آپ اپنے تحقیقی موضوع کو سلامتی مطالعات کے نقطہ نظر سے پیش کرتی ہیں۔ اس تناظر میں ہند۔ بحرالکاہل خطے کے جغرافیائی سیاسی حالات کو سمجھنے میں کیا انوکھے مشاہدات سامنے آتے ہیں؟
سلامتی مطالعات کے زاویے سے ہند ۔ بحرالکاہل خطے کی صورت حال کا جائزہ لینا ان عوامل کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے جو مسابقت اور تعاون کو پروان چڑھاتے ہیں، خواہ وہ ساختی ہوں، حکمت عملی سے متعلق ہوں یا اصولی۔ اس نظریے سے یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ ریاستیں موجودہ حالت کو تبدیل کرنے کی کوشش کیوں کرتی ہیں اور اس کا جواب کیسے دیتی ہیں۔ یہ بات بھی سمجھ میں آتی ہے کہ ریاستیں خطرات کا تجزیہ کیسے کرتی ہیں ، کون سے اشاریے استعمال میں لاتی ہیں اور یہ تاثرات ان کے رویے پر کس طرح اثر انداز ہوتے ہیں۔
ہند ۔ بحرالکاہل خطے میں خطرات جغرافیائی سیاسی، تزویراتی اور معاشی ہیں۔ مثال کے طور پر، چین کی جنوبی چین سمندر اور بحر ہند میں جارحانہ سرگرمیاں اس کی توانائی کی تقریباً 80 فی صد درآمدات لے جانے والے سمندری راستوں پر انحصار کی وجہ سے ہیں۔ ان راستوں پر قابو پانا چین کو بڑا تزویراتی فائدہ دے گا۔ اسی طرح، اگر ہندوسستان بحر ہند میں اپنا اثر و رسوخ کھو دیتا ہے ، جو اس کا اسٹریٹجک علاقہ ہے، تو وہ مقامی اثرورسوخ رکھنے والی طاقت کی اپنی حیثیت کھو بیٹھے گا۔
آپ ہند۔ بحرالکاہل خطے کو درپیش کلیدی سلامتی خدشات کو کس نظر سے دیکھتی ہیں؟
ہند۔ بحرالکاہل خطے میں اسٹریٹجک ماحول مسلسل بدلتا رہتا ہے اور اس کی پیچیدگیاں ریاستی طرز عمل اور طاقت کے توازن کو متاثر کرتی ہیں۔ چین کی میری ٹائم(بحری یا سمندری) سلک روڈ انیشی ایٹو کے تحت بحر ہند میں بڑھتی ہوئی سرگرمیاں ایک نئے علاقائی بحری منظر نامے کی تصویر پیش کر رہی ہیں۔ جنوبی چین سمندر میں عسکری موجودگی اور علاقائی دعوے بحری گزرگاہوں کی آزادی اور متعلقہ ممالک کی خود مختاری کے لیے ایک سنجیدہ چیلنج بن چکے ہیں۔ اس کے علاوہ چین کی ’ بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو‘ کے ذریعے بحر ہند میں مسلسل پیش قدمی ہندوستان کو اسٹریٹجک طور پر گھیرنے کے خدشات کو جنم دیتی ہے جسے چین کی ’’ موتیوں کی لڑی‘‘ حکمت عملی کے طور پر جانا جاتا ہے۔
امریکہ، ہندوستان اور جاپان کے درمیان سہ فریقی تعاون کو اس وقت غیر معمولی اہمیت حاصل ہو گئی ہے، جب ہند ۔ بحرالکاہل خطے کا جغرافیائی سیاسی اور اقتصادی منظرنامہ تیزی سے بدل رہا ہے اور خطے کے حفاظتی ڈھانچے کو کئی چیلنج کا سامنا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ، یہ خطہ غیر روایتی سلامتی کے خطرات جیسے سمندری قزاقی، غیر قانونی ماہی گیری، انسانی اسمگلنگ اور سمندری دہشت گردی سے بھی دوچار ہے۔
جاپان پر آپ کی توجہ ہند۔ بحرالکاہل خطے میں اتحادی تعلقات، طاقت کے توازن اور اسٹریٹجک تبدیلیوں کو سمجھنے میں کس طرح معاون ثابت ہوتی ہے؟
جاپان کی خارجہ پالیسی اور اس کا بڑھتا ہوا اسٹریٹجک کردار اس خطے کی گفتگو میں اہم مقام حاصل کر چکا ہے۔ جاپان کے علاقائی اتحادوں میں دوبارہ متحرک ہونے اور اس کی اسٹریٹجک حکمتِ عملیوں کا مطالعہ میرے لیے بصیرت افزا رہا ہے۔ ہند۔ بحر الکاہل خطے میں طاقت اور تعلقات کی بدلتی نوعیت کو سمجھنے کے لیے جاپان کی خارجہ پالیسی کا مطالعہ بہت ضروری ہے۔
آئی وی ایل پی میں آپ کی شرکت نے امریکی خارجہ پالیسی اور ہند۔ بحرالکاہل حکمت عملی کو سمجھنے میں آپ کی بصیرت میں کس طرح اضافہ کیا؟
خارجہ پالیسی خلا میں پروان نہیں چڑھتی۔ یہ اکثر اندرونی ترجیحات اور قومی نقطہ نظر سے متاثر ہوتی ہے۔ آئی وی ایل پی میں شرکت کے دوران مجھے امریکی سیاست ، سماج اور ثقافت کو براہ راست دیکھنے کا موقع ملا جو امریکی خارجہ پالیسی کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
واشنگٹن ڈی سی کے ممتاز تھنک ٹینکس (ایسے تحقیقی یا مشاورتی ادارے جو پالیسی سازی، سلامتی، معاشیات، بین الاقوامی تعلقات یا دیگر اہم موضوعات پر تحقیق و تجزیہ کرتے ہیں اور حکومت یا عوام کو سفارشات فراہم کرتے ہیں ) سے وابستہ امریکی اسکالرس سے ملاقاتوں اور اوہائیو اسٹیٹ یونیورسٹی اور یونیورسٹی آف ڈینور جیسے اداروں کے دوروں کے ذریعے مجھے یہ سمجھنے میں گہری بصیرت حاصل ہوئی کہ امریکہ ہند۔ بحرالکاہل خطے سے کیسے نبرد آزما ہو سکتا ہے۔ یہ تجربات امریکی پالیسیوں کے پس پشت اسٹریٹجک سوچ کو بہتر انداز میں سمجھنے میں مددگار ثابت ہوئے۔
آپ نے ۲۰۲۲ء کی فلبرائٹ۔ نہرو فیلوشپ کے دوران کیا سیکھا اور دریافت کیا؟ اور اس تجربے نے ہند۔بحرالکاہل خطے میں علاقائی سلامتی سے متعلق آپ کی موجودہ تحقیق پر کیا اثر مرتب کیا؟
۲۰۲۲ء کی فلبرائٹ۔ نہرو فیلو شپ کی بدولت میں نے امریکہ میں فیلڈ ریسرچ کی۔ میں نے امریکی ماہرینِ خارجہ پالیسی اور سلامتی تجزیہ کاروں سے بات چیت کی جو میری تحقیق میں امریکہ، ہندوستان اور جاپان کے سمندری تعاون کو سمجھنے میں مددگار ثابت ہوئی۔
اس فیلڈ ورک نے میری سمجھ کو مزید گہرائی بخشی کہ یہ تین ممالک کس طرح بحرِ ہند میں علاقائی سلامتی کے لیے مل کر کام کر رہے ہیں، جو ایک نہایت اہم جغرافیائی اور اقتصادی علاقہ بن چکا ہے۔ اس فیلوشپ کے دوران جمع کردہ اعداد وشمار نے میری گذشتہ سال شائع ہونے والی کتاب کی بنیاد فراہم کی۔