Saturday, December 27, 2025 | 07, 1447 رجب
  • News
  • »
  • تعلیم و روزگار
  • »
  • امریکی ایس ٹی ای ایم اختراع کی نمونہ سازی

امریکی ایس ٹی ای ایم اختراع کی نمونہ سازی

    Reported By: Munsif News Bureau | Edited By: | Last Updated: Dec 26, 2025 IST

امریکی ایس ٹی ای ایم اختراع کی نمونہ سازی

انٹرنیشنل وزیٹر لیڈرشپ پروگرام سے فیض یافتہ بی پریسٹلی شان امریکہ کے ایس ٹی ای ایم مراکز سے حاصل پالیسی، اختراع اور صنعتی تعاون کے تجربات کو ہندوستان میں عملی اور صنعت سے ہم آہنگ اعلیٰ تعلیمی ماڈلس کی تیاری کے لیے بروئے کار لا رہے ہیں۔

ڈاکٹر سیّد سلیمان اختر

جب بی۔ پریسٹلی شان واشنگٹن ڈی سی میں ناسا کے ہیڈکوارٹرس گئے، مساچیوسٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (ایم آئی ٹی )کے اسٹارٹ اپ انکیوبیٹر(یہ ایک کاروباری فروغ مرکز کے طور پر نئی کمپنیوں کو تکنیکی اور مالی مدد فراہم کرتا ہے) کا دورہ کیا اور سیئٹل کے میکر اسپیسز (صنعتی اور تکنیکی  تخلیقی مراکز)کا جائزہ لیا تو انہوں نے دیکھا کہ امریکی پالیسی ، تعلیم اور کاروباری جدت کس طرح ایک مربوط نظام میں یکجا ہوتی ہیں ۔ وہ یہ سبق ہندوستان میں اپنانے کے عزم کے ساتھ ملک واپس آئے۔

بینگالورو میں واقع الائنس یونیورسٹی کے وائس چانسلر شان نے دسمبر ۲۰۲۳ء میں امریکی محکمہ خارجہ کے بین الاقوامی وزیٹر لیڈرشپ پروگرام میں شرکت کی، جس کا موضوع تھا: ’’کواڈ میں اعلیٰ تعلیم میں ایس ٹی ای ایم شعبہ جات میں برتری۔‘‘ تین ہفتوں کے دوران انہوں نے آسٹریلیا اور جاپان کے شرکاء کے ساتھ مل کر اس امر کا مطالعہ کیا کہ امریکہ کس طرح مستقبل کے لیے تیار جدید استعداد کو پروان چڑھاتا اور ٹیکنالوجی پر مبنی معیشتیں تشکیل دیتا ہے۔

شان کہتے ہیں ’’ ان تجربات نے میرے یقین کو مزید مضبوط کیا کہ ہندوستانی  یونیورسٹیوں کو روایتی کلاس روم کی تعلیم سے آگے بڑھنا چاہیے اور اختراع، تعاون اور کاروباری سرگرمیوں کے مراکز کے طور پر ابھرنا چاہیے۔‘‘

اختراع کا سہ جہتی نظام

ایک بایو میڈیکل انجینئر اور سگنل پروسیسنگ اور ریموٹ سینسنگ میں پی ایچ ڈی کے حامل، شان  نے اپنی پیشہ ورانہ زندگی کی شروعات ایک لیباریٹری سے کی ۔ وہ بتاتے ہیں ’’ میرا  پس منظر مجھے تعلیمی بنیاد فراہم کرتا ہے اور آئی وی ایل پی کا تجربہ مجھے عالمی نقطہ نظر عطا کرتا ہے۔‘‘

واشنگٹن، بوسٹن، روچیسٹر اور سیئٹل میں شان نے حکومت، تعلیمی اداروں اور صنعت کے درمیان مؤثر تعاون پر مبنی ایک مثلث کا مشاہدہ کیا۔ ناسا اور نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ میں انہوں نے دیکھا کہ کس طرح ایس ٹی ای ایم تعلیم کی ترجیحات تحقیقی مواقع، مالی وسائل اور شراکت داریوں میں تبدیل ہوتی ہیں جو تعلیم اور صنعت دونوں کے لیے فائدہ مند ثابت ہوتی ہیں۔

بوسٹن میں ایم آئی ٹی اور ٹفٹس یونیورسٹی جیسے اداروں نے دکھایا کہ کس طرح وہ صنعت کے ساتھ مل کر نصاب تیار کرتے ہیں تاکہ تحقیق کو عملی 

شکل دی جا سکے۔  سیئٹل کے گلوبل انوویشن ایکسچینج اور تخلیقی ورکشاپس (میکر اسپیسز) میں، شان نے مختلف شعبوں کے باہمی تعاون اور طلبہ کی اختراعی سرگرمیوں کے اثرات کا قریب سے مشاہدہ کیا ۔

شان کو جس بات نے سب سے زیادہ متاثر کیا وہ مربوط نظامی طریقہ کار تھا جہاں وفاقی اور ریاستی حکومتیں معاون پالیسیاں تشکیل دیتی ہیں،یونیورسٹیاں عملی تعلیم کو نصاب میں شامل کرتی ہیں اور صنعت حقیقی دنیا کے مواقع فراہم کرتی ہے۔ شان کے مطابق ’’ یہ ہم آہنگی اس بات کو یقینی بناتی ہے کہ تعلیم صرف علم پر مبنی نہ رہے بلکہ اختراع پر مبنی بھی ہو تاکہ طلبہ معاشرے میں فوری اور بامعنی کردار ادا کرنے کے قابل بن سکیں۔ وہ کہتے ہیں ’’ ایک واضح فریم ورک کے ذریعے امریکہ کے تجربات کو ہندوستان کی اعلیٰ تعلیم اور کاروباری ترقی کے لیے اپنایا جا سکتا ہے۔‘‘

امریکی عملی طریقوں کو اپنانا

ہندوستان واپس آ کر شان نے کئی اقدامات نافذ کیے۔ ان کی قیادت میں الائنس یونیورسٹی نے ایک ٹیکنالوجی بزنس انکیوبیٹر کا آغاز کیا  جو ایک امریکی طرز کا اختراعی پلیٹ فارم ہے جو طلبہ اور اساتذہ کی اسٹارٹ اپ کمپنیوں کو تصور سے لے کر آغازِ عمل تک مدد فراہم کرتا ہے۔

شان کہتے ہیں  ’’امریکی نظام میں پالیسی، مقصد اور عمل کا جو امتزاج ہے، اس نے مجھے الائنس یونیورسٹی میں ایسا وژن اپنانے کی تحریک دی جو تحقیق، تعلیم اور طلبہ کے سیکھنے کے تجربے میں کاروباری مہارت کو شامل کرے۔‘‘

الائنس یونیورسٹی نے اپنا نصاب جدید خطوط پر استوار کیا، جس میں آئی بی ایم اور اے ڈبلیو ایس کے ساتھ سرٹیفکیشن کورسز شامل کیے گئے۔ یونیورسٹی نے صنعت کی رہنمائی میں انٹرن شپس شروع کیں اور روبوٹکس، انٹرنیٹ آف تھنگس، امیرسو ٹیکنالوجی، اور ایڈیٹیو مینوفیکچرنگ جیسے شعبوں میں امریکی طرز کے تحقیقی مراکز قائم کیے۔

شان نے بتایا ’’ آئیڈیا تھونس(اختراعی خیالات کا مقابلہ)، ہیکا تھونس(ایسا پروگرام یا تقریب جس میں لوگ مختصر مدت میں تیز رفتار اور اشتراکی انجینئرنگ یا تخلیقی کام میں حصہ لیتے ہیں) اور اختراعی ورکشاپ کے ذریعے (جن میں راہنمائی اور دانشورانہ املاک کے  حقوق کی رہبری شامل ہے) ہم ایک ایسا اختراعی کلچر تشکیل دے رہے ہیں جو انٹرنیشنل وزیٹر لیڈرشپ پروگرام کے دوران دیکھے گئے اشتراکی جذبے کی بنیاد ہے۔ ‘‘ الائنس یونیورسٹی نے ایک پی ایچ ڈی پروگرام بھی متعارف کروایا ہے جو ڈاکٹورل تحقیق کو کاروباری انکیوبیشن کے ساتھ مربوط کرتا ہے۔

یہ امریکی تعلیم میں عملی طور پر سیکھنے اور افرادی قوت کی مطابقت پر اصرار کی عکّاسی کرتے ہیں، وہ اصول جن کی وجہ سے امریکی جامعات اختراع اور روزگار سے مربوط تعلیم کے عالمی معیار کے طور پر جا نے جاتے ہیں۔

الائنس یونیورسٹی کے اقدامات، جیسے فیکلٹی ڈویلپمنٹ پروگرام اور نصاب کی صنعت کے ساتھ مشترکہ تیاری، اس نقطۂ نظر کو عملی شکل دیتے ہیں۔

شان بتاتے ہیں’’ میرا آئی وی ایل پی دورہ ایک طاقتور بصارت فراہم کرتا ہے کہ کس طرح ہم آہنگ مربوط نظامی نقطہ نظر اختراع کو فروغ دے سکتا ہے۔میں نے مشاہدہ کیا کہ کس طرح امریکی ادارے انکیوبیشن اور بین موضوعاتی تحقیق کو مربوط کرسکتے ہیں۔ اسی ماڈل سے ترغیب لے کر میں نے اسٹیم شعبہ جات کی تعلیم اور کاروباری پیشہ وری کو نئے سرے سے منظم کیا ہے۔‘‘

اس طور پر شان ہندوستان کے اعلیٰ تعلیمی نظام کو ثابت شدہ امریکی ماڈلس کے مطابق ہم آہنگ کر کے، نتیجہ پر مبنی تعلیم، عملی تحقیق، اور اختراع کی جانب ایک وسیع تر تبدیلی کو فروغ دینے میں مدد کر رہے ہیں۔

 

بشکریہ اسپَین میگزین، امریکی سفارت خانہ، نئی دہلی