اس مضمون میں ناسا کے سائنسداں رَجت بندلیش بتا رہے ہیں کہ نائیسار کس طرح زمین کے مشاہدے میں بہتری لائے گا اور پیچیدہ قدرتی نظام کی پیمائش کرے گا، جس سے امریکہ اور ہندوستان کے سائنسی تعاون کو مزید استحکام ملے گا۔
ظہور حسین بٹ
مصنوعی سیّاروں سے حاصل شدہ درست اعدادو شمار طبقات کو قدرتی آفات کے لیے تیار رہنے، زراعت کی منصوبہ بندی کرنے اور موسمی اثرات کی تفہیم میں مدد دینے کا کام کرتے ہیں۔ اور رَجت بندلیش اس کام کو ممکن بنانے میں ایک اہم کردار ادا کر تے ہیں۔ وہ یو ایس نیشنل ایروناٹکس اینڈ اسپیس ایڈمنسٹریشن (ناسا) کے گاڈارڈ اسپیس فلائٹ سینٹر میں تحقیقی ماہرِ طبیعیات کے طور پر خدمات انجام دے رہے ہیں اور ناسا۔اسرو اسنتھیٹک اپرچر رڈار (نائیسار) مشن کا حصہ ہیں۔یہ زمین رڈار ٹیکنالوجی استعمال کرکے زمین کی سطح کی انتہائی باریک تفصیلات کا مشاہدہ کرنے والا ایک مشترکہ مصنوعی سیّارہ پروجیکٹ ہے جسے ناسا اور ہندوستانی خلائی تحقیق تنظیم (اسرو) نے مل کر تیار کیا ہے۔ اس مشن کو رواں برس اس سال بعد میں ہندوستان سے خلا میں داغےجانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
مشن کا جائزہ
نائیسار مشن کی خاص بات یہ ہے کہ ناسا اور اسرو نے پہلی بار زمین کا مشاہدہ کرنے والے کسی مشن کے لیے ہارڈویئر (خلائی مشن کے ساز و سامان)کی تیاری میں باہمی تعاون کیا ہے۔ یہ مشن زمین کے کچھ انتہائی پیچیدہ قدرتی نظاموں کا مشاہدہ اور تجزیہ کرے گا جس سے امریکہ اور ہندوستان کو موسمیاتی اثرات اور دیگر عالمی چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے مل جل کر کام کرنے میں مدد ملے گی۔
فروری 2025 کے امریکہ۔ہند سربراہانِ مملکت کے مشترکہ بیان میں صدر ڈو نالڈ ٹرمپ اور وزیر اعظم نریندر مودی نے 2025 کو امریکہ اور ہندوستان کے مابین شہری خلائی تعاون کے لیے ایک سنگِ میل سال قرار دیا۔ انہوں نے نائیسار کو اپنی نوعیت کا پہلا مشن قرار دیا جس کے تحت دوہرے رڈار کے ذریعے زمین کی سطح میں ہونے والی تبدیلیوں کا منظم طور پر نقشہ تیار کیا جائے گا۔
بندلیش بتاتے ہیں ’’نائیسار اب تک تیار کیا گیا سب سے جدید ایل۔بینڈ اور ایس۔بینڈ اسنتھیٹک اپرچر رڈار مصنوعی سیّارہ ہے۔‘‘ یہ سیٹلائٹ تقریباً ہر چھ دن بعد زمین کی تصاویر لے گا، اور اتنی تفصیل سے کہ 10 میٹر یا اس سے بڑی چیزیں صاف نظر آئیں گی۔یہ مصنوعی سیّارہ قدرتی آفات سے زمین میں ہونے والی تبدیلیوں کی پیمائش کرے گا، برفانی تودوں اور چادروں میں تبدیلیوں کا سراغ لگائے گا اور جنگلات و دلدلی علاقوں کی حرکیات کی نگرانی کرے گا تاکہ سائنسی تحقیق اور آفات سے نمٹنے کی کوششوں میں مدد مل سکے۔
بندلیش کے مطابق ’’نائیسار کی مدد سے خلا سے ان مظاہر کا مشاہدہ کرنے کی صلاحیت قومی سلامتی کے لیے نہایت اہم ہے۔‘‘ نائیسار کے ذریعہ تیز رفتار اور عالمی سطح پر کی جانے والی نگرانی کسی جگہ کے آفات سے قبل اور اس کے بعد کے مشاہدات کو ممکن بنائے گی جس سے نقصان کا اندازہ لگانے اور امدادی کارروائیوں کی مؤثر رہنمائی میں مدد ملے گی ،یوں انسانی زندگی، ذرائع معاش اور ماحولیاتی نظام کے تحفظ کے لیے امریکہ اور ہندوستان کی مشترکہ کوششوں کو مزید تقویت حاصل ہو گی۔
زمین سےوابستہ سائنسی سفر:
آئی آئی ٹی بامبے اور پینسلوانیا اسٹیٹ یونیورسٹی کے سابق طالب علم بندلیش اعلیٰ تعلیم کے لیے امریکہ آئے تھے جہاں انہوں نےعلمِ آب (ہائیڈرولوجی)میں مہارت کے ساتھ سول انجینئرنگ میں گریجویشن کیا۔ وہ بتاتے ہیں ’’اپنی تحقیق کے دوران میں نے دور بینی مشاہدات کا استعمال کیا جو بعد میں یو ایس ڈی اے کی زرعی تحقیقی خدمات (اے آر ایس) اور اب ناسا میں میرے کام کا مستقل حصہ بن گیا۔‘‘
ریموٹ سینسنگ سے ان کے ابتدائی تعارف نے زمین کے مشاہدے پر ان کی مسلسل توجہ کو بنیاد فراہم کی۔ نائیسار مشن کے علاوہ بندلیش ناسا کے سوائل موائسچر ایکٹیو پیسیو (ایس ایم اے پی) مشن میں نائب پروجیکٹ سائنسداں کے طور پر بھی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ یہ ارضی سیٹلائٹ زمین کی سطح کی مٹی میں نمی کی مقدار کی پیمائش کرتا ہے تاکہ زمین موجود پانی کے ذخائر(ان میں سمندری پانی شامل نہیں ہے)، کاربن اور توانائی کے چکروں کو بہتر طور پر سمجھا جا سکے۔
مٹی کی نمی کا پتہ لگانا:
بندلیش بتاتے ہیں کہ نائیسار مشن کا مقصد ’’مٹی میں نمی کی حرکیات اور پودوں میں کاربن کے ذخیرے کو سمجھنا، زلزلوں، آتش فشاں کے پھٹنے اور مٹی کے تودے گرنے کے حوالے سے معلومات میں بہتری لانا ہے۔‘‘ وہ مزید کہتے ہیں ’’یہ پودوں کے دباؤ اور آبپاشی کے بارے میں معلومات فراہم کرے گا، جس سے غذائی تحفظ کے حوالے سے زرعی نگرانی کی صلاحیتوں کو بہتر بنانے میں مدد ملے گی۔‘‘
مٹی کی نمی کی اہمیت پر تفصیل سے بات کرتے ہوئے بندلیش بتاتے ہیں کہ یہ خشک سالی اور سیلاب کی پیشن گوئی، فصلوں کی نگرانی، پانی کی فراہمی کے انتظام اور زمین کی سطح کے آبیاتی مطالعہ کو سمجھنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ یہ آبپاشی کی منصوبہ بندی کی رہنمائی بھی فراہم کرتاہے۔ مٹی کی مناسب نمی جڑوں کی صحت مند نشوونما اور غذائی اجزاء کو جذب کرنے میں مدد دیتی ہے، جس سے پیداوار میں بہتری اور فصل کی پیداواریت میں اضافہ ہوتا ہے۔
مٹی کی نمی کا اندازہ لگانے کے لیے نائیسار ایل۔بینڈ رڈار کا استعمال کرے گا۔ بندلیش بتاتے ہیں ’’ایل۔بینڈ رڈار بادلوں اور پودوں کے آر پار دیکھ سکتا ہے، جو اسے مٹی کی اوپری تہہ میں نمی کی پیمائش کے لیے خاص طور پر مفید بناتا ہے۔‘‘ مٹی کتنی گیلی یا خشک ہے، اس کے مطابق رڈار سگنل میں تبدیلی آتی ہے، جو اس بات کا نتیجہ ہے کہ مٹی برقی توانائی کو کس طرح ذخیرہ اور منتقل کرتی ہے۔ سائنسدانوں کو مٹی کی نمی کے درست اعداد وشمارکو حاصل کرنے کے لیے سگنل پر پودوں کے اثرات کو بھی مدنظر رکھنا ضروری ہے۔ اس سے سائنسدانوں کو نمی کی سطحوں کا اندازہ لگانے میں مدد ملتی ہے،خواہ زمین پودوں سے ڈھکی ہوئی ہی کیوں نہ ہو۔
ایس ایم اے پی مہارت کو آگے بڑھانا:
ایس ایم اے پی (یہ ناسا کا ایک خلائی مشن ہے جو زمین کی سطح کی مٹی میں نمی اور زمین کی حالت (زمین سخت ہے یا نرم) کے بارے میں معلومات اکٹھا کرتا ہے) جیسی مہمات پر بندلیش کے کام نے انہیں نائیسار پروجیکٹ پر کام کرنے کے لیے خاص طور پر تیار کیا ہے۔ وہ بتاتے ہیں ’’میں ایس ایم اے پی مشن سے اس کے آغاز سے ہی وابستہ رہا ہوں اور مٹی کی نمی کے الگورِدم کی تیاری اور تصدیق میں مدد فراہم کر رہا ہوں۔ ایس ایم اے پی کے نائب پروجیکٹ سائنسداں کی حیثیت سے، میری ذمہ داریوں میں مصنوعی سیّارے کے عملیاتی فیصلے،مٹی کی نمی کی مصنوعات کی ترقی، مشن سے حاصل سائنسی نتائج اور ان کے عملی استعمالات شامل ہیں۔‘‘
ان ذمہ داریوں نے انہیں مٹی کی نمی کے الگورِدم اور مختلف اطلاقات کے لیےاس کے استعمال میں اہم کردار ادا کرنے کا موقع دیا ہے۔ انہوں نے کاشتکاروں کی رہنمائی کے لیے ایس ایم اے پی مشاہدات کے استعمال پر امریکی محکمہ زراعت کے ساتھ قریبی تعاون کیا ہے۔ بندلیش کہتے ہیں ’’میرا مقصد ان اطلاقات کو نائیسار پر اپنے کام میں شامل کرنا ہے۔‘‘
سائنسی تحقیق کو آگے بڑھانے کے علاوہ، بندلیش بین الاقوامی تعاون کو فروغ دینے کے موقع کو اہمیت دیتے ہیں۔ وہ نائیسار پر اسرو کے سائنسدانوں کے ساتھ کام کرنے کو ایک اعزاز سمجھتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں ’’امریکہ اور ہندوستان دونوں کے پاس مضبوط اور انتہائی قابل خلائی ایجنسیاں ہیں۔ پانی، توانائی اور کاربن کے چکر کے پیچیدہ عملوں کو مکمل طور پر سمجھنے کے لیے عالمی سطح پر ارضیاتی سائنس کے مشاہدات کرنا ضروری ہیں۔ ان خلائی ایجنسیوں کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ اپنے علم کو آگے بڑھا کر بنی نوع انسان کے فائدے کے لیے ایک ساتھ مل کر کام کریں۔‘‘