دبئی:برطانیہ کےلیڈز یونیورسٹی کی طالبہ جسے سعودی عرب میں 34 سال قید کی سزا سنائی گئی تھی، اب انکی سزا کو معاف کر دی گئی ہے۔ سلمی الشہاب کو 2022 میں سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر ایک ٹویٹ کرنے کے معاملہ میں 34 سال قید کی سزا سنائی گئی تھی ۔آپ کو بتا دیں کہ پیر کے روز، ایک حقوق کی پاسداری رکھنے والے گروپ نے کہا کہ سلمی الشہاب ، جو دو بچوں کی ماں ہے، انہیں 2022 میں اس کی ٹویٹس پر 34 سال قید کی سزا سنائی گئی تھی۔ ان کی رہائی کا باضابطہ اعلان لندن میں سعودی حقوق کے ایک گروپ ALQST نے کیا ہے۔ جنوری میں، ALQST اور دیگر گروپوں نے کہا کہ الشہاب کی سزا کو کم کر کے چار سال کر دیا گیا ہے، مزید چار سال کی سزا کو منسوخ کر دیا گیا ہے۔ گروپ نے کہا، اب اسے مکمل آزادی دی جانی چاہیے۔بشمول جس میں اس کی تعلیم مکمل کرنے کے لیے سفر کا حق بھی شامل ہے۔
انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم 'ایمنسٹی انٹرنیشنل' نے بھی سلمیٰ کی سزا معاف کرنے کی اطلاع دی۔ ایمنسٹی کی مغربی ایشیا کی محقق دانا احمد نے کہا کہ انہوں نے 300 دن قید میں گزارے یہاں تک کہ انہیں قانونی امداد سے بھی محروم رکھا گیا۔ اور انہیں تشدد پسند کے متعدد الزامات میں مجرم ٹھہرایا گیا اور انہیں سزا سنائی گئی۔انہوں نے کہا، یہ صرف اس لیے کیا گیا کہ اس نے خواتین کے حقوق کی حمایت میں ٹویٹ کیا اور ایک سعودی خواتین کے حقوق کے کارکن کے ٹویٹ کو ری ٹویٹ کیا۔ بتادیں کہ امریکہ میں قائم 'مڈل ایسٹ ڈیموکریسی سینٹر' اور 'فریڈم ہاؤس' نے بھی اس فیصلے کا خیر مقدم کیا ہے۔ تا ہم سعودی عرب نے ان کی رہائی کے بارے میں کوئی اطلاع نہیں دی ہے۔
آپ کو بتا دیں کہ الشہاب کو 15 جنوری 2021 کو حراست میں لیا گیا تھا۔ انہیں سعودی عرب میں اس وقت گرفتار کیا گیا تھا جب اس نے برطانیہ واپس جانے کا منصوبہ بنایا ۔ ان کا تعلق سعودی عرب کی شیعہ مسلم اقلیت سے ہے، جو طویل عرصے سے مملکت میں منظم امتیازی سلوک کی شکایت کرتی رہی ہے۔یاد رہے کہ 2023 میں، الشہاب اور سات دیگر خواتین نے اپنی قید کے خلاف احتجاج اور ان کی رہائی کا مطالبہ کرنے کے لیے بھوک ہڑتال بھی کی۔