دہلی فسادات معاملہ میں آج سپریم کورٹ میں سماعت ہوئی،جسٹس اروند کمار اور جسٹس این وی انجاریا کی بنچ نے کیس کی سماعت کی،سماعت کے دوران مختلف ملزمان کی جانب سے کئی نامور وکلاء نے اپنے دلائل عدالت میں پیش کئے۔ سینئر وکیل ابھیشیک منو سنگھوی نے ملزمہ گلفشا فاطمہ کی طرف سے دلائل پیش کئے۔ شرجیل امام کی نمائندگی سدھارتھ ڈیو نے کی جبکہ عمر خالد کی جانب سے سینئر وکیل کپل سبل نے دلائل دیے۔تاہم اب اگلی سماعت 3 نومبر کو ہوگی۔
	عمر خالد معاملہ میں سماعت؟
	کیس کے ملزم عمر خالد نے دعویٰ کیا ہے کہ اس کے دہلی فسادات سے جوڑنے کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔ انہوں نے جمعہ کو سپریم کورٹ کو بتایا کہ تشدد سے ان کو جوڑنے کا کوئی ثبوت نہیں ہے اور ان کے خلاف سازش کے الزامات جھوٹے ہیں۔خالد کی نمائندگی کرنے والے سینئر ایڈوکیٹ کپل سبل نے جسٹس اروند کمار اور این وی انجاریا کی بنچ کو بتایا کہ 2020 کے دہلی فسادات سے اسے جوڑنے والا کوئی پیسہ، ہتھیار یا کوئی جسمانی ثبوت برآمد نہیں ہوا ہے۔جو اس کے تشدد سے منسلک ہو،انہوں نے کہا کہ 751 ایف آئی آر ہیں، جن میں سے ایک مجھ پر الزام لگاتی ہے، اور اگر یہ سازش ہے تو قدرے حیرت کی بات ہے!
	اسکے علاوہ خالد کی تقریر پر بات کرتے ہوئے سبل نے کہا کہ وہ  یوٹیوب پر دستیاب ہے۔ یہ ایک عوامی تقریر تھی، جس میں خالد نے گاندھیائی اصولوں کے بارے میں بات کی۔
	گلفشہ فاطمہ کیس معاملہ میں سماعت:
	سماعت کے  دوران گلفشا فاطمہ کی نمائندگی کرنے والے سینئر ایڈوکیٹ ابھیشیک سنگھوی نے دلیل دی کہ وہ اپریل 2020 سے پانچ سال اور پانچ ماہ سے جیل میں ہے۔ سنگھوی نے کہا کہ مرکزی چارج شیٹ 16 ستمبر 2020 کو داخل کی گئی تھی، لیکن استغاثہ نے اسے ہر سال ضمنی چارج شیٹ داخل کرنے کا رواج بنا دیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ فاطمہ کی ضمانت کی عرضی  پر غور کرنے میں غیر معمولی تاخیر ہوئی ہے، جو 2020 کے بعد سے 90 بار درج کی جا چکی ہے۔
	شرجیل امام معاملہ میں سماعت:
	شرجیل امام کی نمائندگی کرتے ہوئے سینئر وکیل سدھارتھ ڈیو نے کہا کہ پولیس کو تحقیقات مکمل کرنے میں تین سال لگے۔ انہوں نے کہا کہ شرجیل نے یہ تقریریں فسادات سے تقریباً دو ماہ قبل کی تھیں۔ ڈیو نے کہا کہ ایسا کوئی براہ راست یا قریبی تعلق نہیں ہے جس سے یہ تجویز کیا گیا ہو کہ شرجیل نے تشدد کو ہوا دی ہو۔ تاہم سماعت بے نتیجہ رہی اوراب 3 نومبر کو ہوگی۔
	خیال رہے کہ 2020 میں دہلی میں فسادات پھوٹ پڑے ۔ جس میں 53 افراد کی موت ہوئی ۔ اس معاملے میں دہلی پولیس نے  عمر خالد سمیت دیگر کو واقعے کا قصور وار قرار دیا ہے۔دہلی ہائی کورٹ کی جانب سے ضمانت عرضی مسترد کیے جانے کے بعد سے معاملہ سپریم کورٹ میں ہے۔اسی معاملہ میں آج جمعہ 31 اکتوبر کو سماعت ہوئی۔تاہم اب اگلی سماعت 3 نومبر کو ہوگی۔
	پولیس نے ملزمان کے خلاف دائر کیا حلف نامہ:
	دہلی پولیس نے سپریم کورٹ میں حلف نامہ داخل کیا ہے،جس میں دعوی کیا گیا ہے کہ،دہلی میں ہوئے تشدد ایک بے ساختہ پھوٹ نہیں ، بلکہ یہ ایک منظم حکومت کی تبدیلی کی مہم کا حصہ تھا ،جس کا مقصد ہندوستان کی ساکھ  کو نقصان پہنچانا تھا۔یہ حلف نامہ عمر خالد ، شرجیل امام سمیت دیگر   کی ضمانت عرضیوں  کے جواب میں دیا گیا ہے۔پولیس نے فسادات کو منصوبہ بند  سازش قرار دیتے ہوئے ملزمان کی ضمانت  عرضیوں کی مخالفت کی ہے۔
	حلف نامے میں کہا گیا  ہے کہ 2020 فساد کی منصوبہ بندی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دورے کے دوران کی گئی تاکہ بین الاقوامی میڈیا کی توجہ حاصل کی جا سکے۔ملک کی شبیہ کو داغدار کیا جا سکے اور دنیا کو دکھایا جا سکے کہ سی اے اےکے ذریعے مسلمانوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔اس معاملے میں تمام ملزمان پر غیر قانونی سرگرمیاں (روک تھام) ایکٹ (یو اے پی اے) کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ 
 
                     
                             
                                         
                                                         
                                                         
                                                         
                                                        