سپریم کورٹ آج ایک نہایت اہم اور حساس آئینی معاملے کی سماعت کرے گی جس کا تعلق "وقف ترمیمی ایکٹ 2025" سے ہے۔ اس قانون کے آئینی جواز کو متعدد درخواستوں میں چیلنج کیا گیا ہے، جن پر عدالت عظمیٰ کی دو رکنی بینچ غور کرے گی۔ اس بینچ کی سربراہی چیف جسٹس آف انڈیا، جسٹس بی آر گوَئی کر رہے ہیں آپ کو بتا دیں کہ بی آر گوَئی نے کل ہی چیف جسٹس آپ انڈیا کے طور پر حلف لیا ہے ۔
آپ کو بتادیں کہ یہ کیس جسٹس سنجیو کھنہ کی سربارہی والی بینچ کے پاس گیا تھا ، جن کی بینچ اس مقدمے کی ابتدائی سماعت کر رہی تھی، لیکن ان کے مستعفی ہونے کے بعد نے اب نئے بینچ نے اس حساس نوعیت کے معاملے کو سنبھالا ہے۔
آپ کو بتادیں کہ مرکزی حکومت نے عدالت کی ان تجاویز کی سخت مخالفت کی ہے جن میں کہا گیا تھا کہ ترمیمی ایکٹ کی ایک مخصوص شق، جو وقف بورڈز اور کونسلز میں غیر مسلموں کو شامل کرنے سے متعلق ہے، پر عبوری پابندی عائد کی جائے۔ عدالت نے اس ضمن میں شفافیت اور شکوک و شبہات کے ازالے کے لیے عبوری حکم جاری کرنے کی تجویز دی تھی تاکہ وقف املاک کی ’ڈی نوٹیفیکیشن‘ جیسے عمل کو مؤخر کیا جا سکے۔
مرکز کا موقف واضح ہے کہ پارلیمنٹ کی جانب سے منظور شدہ ترمیمی وقف ایکٹ مکمل طور پر آئینی تقاضوں کے مطابق ہے، اور اس پر کسی قسم کی عبوری مداخلت یا روک عدالت کی آئینی حدود سے تجاوز ہو گی۔
اس سے قبل، 25 اپریل کو وزارت برائے اقلیتی امور نے 1,332 صفحات پر مشتمل ایک جامع ابتدائی حلف نامہ عدالت میں جمع کرایا تھا۔ اس میں وقف ترمیمی ایکٹ 2025 کا بھرپور دفاع کرتے ہوئے عدالت کو باور کرانے کی کوشش کی گئی کہ یہ قانون آئین کے تحت پارلیمنٹ کے اختیارات کا جائز استعمال ہے۔آپ کو بتادیں کہ وقف ایکٹ میں 2025 کی ترمیمات خاص طور پر اس لیے زیرِ بحث ہیں کہ ان میں بعض تبدیلیاں، جیسے دیگر مذاہب کے افراد کی شمولیت، اور وقف جائیدادوں کے انتظامات سے متعلق شقیں، مختلف مذہبی و سماجی حلقوں میں خدشات کو جنم دے رہی ہیں۔ ان ہی بنیادوں پر یہ قانون عدالت کے کٹہرے میں آیا ہے۔