چاروی اروڑا
خلائی تحقیق روایتی طور پر خلا بازوں اور سائنس دانوں کا شعبہ رہا ہے لیکن اس میں تبدیلی آرہی ہے۔اب طلبہ کے پاس اس کا موقع ہے کہ وہ درست طریقوں کے ساتھ ایرواسپیس تحقیق کے مستقبل کو تشکیل دینے والی ٹیکنالوجیوں سے بھی واقفیت حاصل کریں۔ نئی دہلی کے امیریکن سینٹڑ میں واقع خلائی تجرباتی تعلیمی مرکز (ایس ای ایل سی )اس میں طلبہ کی مدد کرتا ہے۔ جدید اختراع سازی تک رسائی کے ذریعہ مرکز شرکاء کو خلا کے شعبے سے متعلق اپنی دلچسپی کو حقیقی مہارتوں اور کریئر انتخاب میں تبدیل کرنے میں مدد کرتا ہے۔ یہ مرکز طلبہ، اساتذہ، خلا ئی شائقین اوردیگر افراد کو یکساں طور پر اپنی طرف متوجہ کرتا ہے۔
فروری 2025 میں امریکہ اورہندوستان کے سربراہانِ مملکت کے مشترکہ بیان میں 2025کو امریکہ اورہندوستان کے درمیان شہری خلائی تعاون کے لیے ایک اہم سال قرار دیا گیا تھا جس میں ناسا اور اسرو کا منصوبہ تھا کہ اے ایکس آئی او ایم کے ذریعہ بین الاقوامی خلائی اسٹیشن پر پہلے ہندوستانی خلاباز کو بھیجا جائے گا۔ اس کے علاوہ مشترکہ نائیسار مشن کا جلد آغاز بھی منصوبے کا حصہ تھا۔ نائیسار مشن دوہری رڈار ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے زمین کی سطح پر ہونے والی تبدیلیوں کو منظم انداز میں بتانے والا اپنی نوعیت کا پہلا مشن ہے۔ ایس ای ایل سی جیسے پروگراموں سے ہندوستانی طلبہ کی حوصلہ افزائی سے دونوں ملکوں کے درمیان تعاون کے جذبے کا اظہار ہوتا ہے۔اس پروگرام میں شرکت کرنے والی نندیکا تنیجہ کہتی ہیں ’’ میں اس پروگرام میں اس لیے شامل ہوئی کیونکہ میں فلکی طبیعیات کی ماہرہ بننا چاہتی ہوں ۔ اچھی بات یہ ہے کہ یہ خلائی سائنس کے نظریاتی اور عملی دونوں پہلوؤں کے درمیان ربط قائم کرتا ہے۔‘‘
نئی دہلی کے امیریکن سینٹر، ہند۔ امریکہ سائنس اینڈ ٹیکنالوجی فورم (آئی یو ایس ایس ٹی ایف )اور جینیکس اسپیس کی مشترکہ پہل کا ثمرہ یہ مرکز اس بات کا ثبوت ہے کہ کس طرح خلا میں امریکہ اور ہندوستان کا تعاون نوجوانوں میں تجسس اور سیکھنے کے عمل کو فروغ دے سکتا ہے۔ ہند۔ امریکہ سائنس اینڈ ٹیکنالوجی فورم ایک خود مختار باہمی تنظیم ہے جو سائنس، ٹیکنالوجی اور جدت طرازی میں ہندوستان اور امریکہ کے درمیان تعاون کو فروغ دیتی ہے جبکہ جینیکس اسپیس ایک غیر سرکاری تنظیم ہے جوخلائی شعبے کی تعلیم اور رسائی پر توجہ مرکوز کرتی ہے۔
خلائی سائنسداں اور ہندوستانی خلائی تحقیق تنظیم (اسرو) کے سابق چیئرمین اے ایس کرن کمار نے 15 اپریل کو اس کی افتتاحی تقریب میں امریکی سفارت خانے کی ستائش کرتے ہوئے کہا ’’یہ قدم نوجوان طلبہ کی ایک بڑی تعداد کو تجرباتی تعلیم حاصل کرنے کا موقع فراہم کرنے اور انہیں درپیش چیلنجوں سے آگاہ کرنے کے لیے اٹھایا گیا ہے۔‘‘
سیکھنے کا شاندار طریقہ:
خلائی تجرباتی تعلیمی مرکز کی خصوصیات ان تجربات میں مضمر ہے جو کلاس روم سے باہر کیے جاتے ہیں۔ طالب علم یہاں صرف خلا کے بارے میں پڑھتے نہیں ہیں بلکہ وہ اس کا تجربہ کرتے ہیں۔مرکز کی اہم خصوصیات میں سے ایک خلا اور فلکیات کلب ہے ۔ایک سال تک جاری رہنے والے اس شاندار پروگرام میں خلائی سائنس، فلکیات اور سیٹلائٹ ٹیکنالوجی پرمبنی 60 شرکا ءکے گروپ کے لیے صلاحیت سازی سے متعلق ورکشاپس، عملی تربیت ، مجازی اور حقیقی کلاس روم سیشنس اور اجرام فلکی کا نظارہ کرنے والے کیمپ شامل ہوں گے۔ ہند۔ امریکہ سائنس اینڈ ٹیکنالوجی فورم کی پرنسپل سائنس افسر چیتالی بھٹا چاریہ بتاتی ہیں ’’ طلبہ کو خلائی چیلنجوں سے نمٹنے کا موقع ملتا ہے اور وہ جو کچھ بھی سیکھتے ہیں اسے یہاں وہ عملی طورپر استعمال کرتے ہیں۔‘‘
خلائی تجرباتی تعلیمی مرکز شرکا ء کومتعامل سرگرمیوں میں مشغول کرکے سائنس کو زندگی کا حصہ بناتا ہے۔ ہند۔ امریکہ سائنس اینڈ ٹیکنالوجی فورم کی پروگرام منیجر پریا تھامس کہتی ہیں ’’ یہ مرکز اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ وہ صرف غیر فعال طورپر سیکھنے والے نہ بنیں بلکہ وہ مسائل کو حل کرنے کی مہارت رکھنے والے ، تنقیدی سوچ رکھنے والےاور ٹیم ورک(جو مستقبل کے خلائی پیشہ وروں کے لیے ضروری خصوصیات ہیں) کرنے والےپیدا کر سکیں۔‘‘
یہ مرکز بین العمل نمائشوں اور چھوٹی دوربینوں سے بھی مزین ہے ،جیسے بریسر اے سی ۹۰/۵۰۰ میسیئر نینو اے زی آر اور جی ایس او چھ انچ ڈوبسنین۔اس میں فالکن 9 راکٹ اور مختلف سیٹلائٹس کے اسکیل ماڈل بھی شامل ہیں۔
زائرین ایک ڈاکنگ مشین (ایک ایسا تربیتی آلہ یا مشین جو خلا میں دو خلائی گاڑیوں ،جیسے خلائی کیپسول اور خلائی اسٹیشن،کو آپس میں جُڑنے کے عمل کی نقل پیش کرتی ہے۔یہ مشین اس بات کی مشق کرواتی ہے کہ خلائی کیپسول کو بہت احتیاط اور درستگی کے ساتھ ایک مخصوص مقام پر لے جا کر بین الاقوامی خلائی اسٹیشن سے جوڑا جائے، تاکہ خلا نورد اس عمل میں ماہر ہو سکیں)کا عملی نمونہ خود چلا سکتے ہیں جو بین الاقوامی خلائی اسٹیشن کے طرز پر بنایا گیا ہے، اور یوں وہ براہِ راست یہ تجربہ کر سکتے ہیں کہ خلا میں ایک کیپسول کو درست مقام پر لے جانے کے لیے کتنی مہارت اور درستگی درکار ہوتی ہے۔
بہت سے شرکاء کے لیے یہ مرکز صرف ایک تربیتی مرکز نہیں ہے بلکہ یہ ان کے خوابوں کی تکمیل کا نقطہ آغاز ہے۔ سریدھر شرما کہتے ہیں’’ مشن کے ڈیزائن کے بارے میں اور جاننا چاہتا ہوں۔ ہر سال مزید خلائی مشن شروع کیے جا رہے ہیں جن میں سے زیادہ تر میں انسانی عملہ شامل ہوتا ہے۔ میں اس عملی مشق کا منتظر ہوں جس کا تعلق خلائی سائنس کی حقیقی دنیا میں اطلاق سے براہ راست ہوتا ہے۔‘‘
مستقبل کے ماہرین فلکیات کی حوصلہ افزائی:
اس طرح کے عزائم کی حوصلہ افزائی کے لیے ایس ای ایل سی بصری طریقوں اورسیکھنے کے تاریخی آلات دونوں کا استعمال کرتا ہے۔ اس میں فوٹو وال میوزیم کا اہتمام ہے جو خلائی سائنس میں امریکہ اورہندوستان کے تعاون اور خلائی تحقیق کی تاریخ کے اہم لمحات کو پیش کرتا ہے۔ فلکیات کے حصے میں سیّاروں کے نظام، چاند کے مراحل اور فلکیات کے قدیم آلات کے نمونے شامل ہیں۔ ان میں سن ڈائل، کرہ ٔسماوی کا نمونہ اور ایک آئینہ دار آلہ (سیکسٹنٹ) شامل ہیں۔ بھٹاچاریہ کہتی ہیں کہ یہ آلات ’’پیچیدہ سائنسی تصورات کو دلچسپ اور سمجھنے میں آسان بناتے ہیں۔‘‘
لیکن صرف حوصلہ افزائی ہی کافی نہیں ہے۔ طلبہ جو کچھ سیکھتے ہیں، اس کے اطلاق کے لیے انہیں مواقع کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایس ای ایل سی تعلیم اور عملی تجربے کے درمیان فرق کو ختم کرنے پر توجہ مرکوز کرتا ہے۔ طلبہ شعبے کے پیشہ ور افراد کے ساتھ براہ راست بات چیت کرتے ہیں اور ان کے تجربے سے مستفید ہوتے ہیں۔ بھٹاچاریہ کہتی ہیں ’’وہ خلا کے کافی اندر پائی جانے والی اشیاء جیسے کہکشاں، نیبولا (خلا میں گیس اور غبار کا بہت بڑا بادل جو اکثر ستاروں کی پیدائش یا موت کے عمل سے جُڑا ہوتا ہے۔ یہ بادل رنگین، چمکدار، اور مختلف شکلوں میں دکھائی دیتے ہیں، خاص طور پر جب دوربین سے دیکھے جائیں)اور ستاروں کے جھرمٹ کے ساتھ ہی راکٹ ٹیکنالوجی، لانچ کے مراحل اور سیٹلائٹ کو نصب کیے جانے کے بارے میں بھی سیکھتے ہیں۔ ‘‘
یہ مواقع طلبہ کو ابتدائی نمونۂ عمل کے باعث پیدا ہونے والے جنون میں شدت لانے میں مدد کرسکتے ہیں۔ شیویکا سنگھل کے لیے امریکی ماہر فلکیات جِل ٹارٹرفلکیات میں ان کی دلچسپی پیدا کرنے کا باعث بنے جس کی وجہ سے وہ ایس ای ایل سی میں شامل ہوئیں۔ وہ کہتی ہیں ’’میں یہ دیکھنے کے لیے بہت پرجوش ہوں کہ آخر اس پروگرام میں کیا ہونے والا ہے اور ہم خلاء کے پہلوؤں کو کس طرح تلاش کرپائیں گے۔‘‘