نئی دہلی: قومی کونسل براے فروغ اردو زبان میں آج ’مذہب و ثقافت پینل‘ کی میٹنگ کا انعقاد عمل میں آیا جس کی صدارت مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے وائس چانسلر پدم شری پروفیسر عین الحسن نے کی اور ملک کے مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والی اہم علمی و ثقافتی شخصیات نے اس میٹنگ میں شرکت کی۔میٹنگ کے آغازمیں کونسل کی اسسٹنٹ ڈائرکٹر(اکیڈمک) ڈاکٹر شمع کوثر یزدانی نے تمام مہمانوں کا استقبال کیا۔ ڈائرکٹر ڈاکٹر محمد شمس اقبال نے افتتاحی کلمات ادا کرتے ہوئے کہا کہ ہندوستان ایک ایسا ملک ہے جو اپنے مذہبی تنوع اور ثقافتی تکثیریت کے اعتبار سے دنیا کے نقشے پر ایک خاص امتیاز رکھتا ہے۔
اس لیے ایک قومی اشاعتی ادارے کے طورپر قومی اردو کونسل ایسے مواد کی تیاری و اشاعت کے لیے پابند عہد ہے جو ملک میں قومی آہنگی کے فروغ و استحکام میں اپنا رول ادا کرے،اسی مقصد سے مذہب و ثقافت کا ایک خاص پینل بنایا گیا ہے،جس کے زیر اہتمام اب تک ہندوستانی مذاہب اور کلچر سے متعلق بہت سی اہم کتابیں شائع کی گئی ہیں۔انھوں نے کہا کہ اس نو تشکیل شدہ پینل میں ایسی اہم شخصیات شامل ہیں جو ملکی سطح پر اپنی شناخت رکھتی ہیں اور ہمیں امید ہے کہ ان کی رہنمائی میں کونسل مزید بہتر کام کر سکتی ہے۔پروفیسر عین الحسن نے اپنے صدارتی خطاب میں کہا کہ آج کے دور میں اگر ہم اپنی قومی ثقافتی شناخت و امتیاز کا تحفظ کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں ایک دوسرے کو سمجھنے کی ضرورت ہوگی اور اس مقصد سے ہمیں مختلف ہندوستانی مذاہب اور ثقافتوں سے متعارف کروانے والا لٹریچر تیار کرنا ہوگا۔
انھوں نے کہا کہ قومی اردو کونسل اس حوالے سے عرصۂ دراز سے کام کر رہی ہے اور ڈاکٹر شمس اقبال کی متحرک سربراہی میں اس کی سرگرمیوں میں مزید سرعت ووسعت آئی ہے،لہذا ہم بجا طورپر امید کرتے ہیں کہ کونسل ہندوستان کے تہذیبی و ثقافتی ورثے کے تحفظ اور اردو زبان میں اس کی اشاعت کے سلسلے میں مزید پختگی کے ساتھ آگے بڑھے گی۔انھوں نے اس کام کے لیے ادارہ جاتی اشتراک پر زور دیتے ہوئے کام کرنے والے باصلاحیت افراد کی تلاش،اسی طرح اہل علم خواتین کی حصے داری پر زور دیا۔انھوں نے کہا کہ ہندوستانی فلسفے میں غیر معمولی گیرائی ہے،جس کا اکتشاف کرنے کے ساتھ دنیا کو اس سے آشنا کرنے کی بھی ضرورت ہے۔
رضالائبریری رامپور کے ڈائرکٹر ڈاکٹر پشکر مشرا نے کہا کہ اردو کی ادبی و شعری اہمیت اپنی جگہ مسلم ہے،مگر اس کے دائرے کو بڑھا کر اسے فکر و فلسفے اور معاشرتی حقائق کے شفاف اظہار کی زبان بنانے پر بھی توجہ دینا چاہیے۔انھوں نے قومی ثقافتی ورثے کو مضبوط کرنے کے حوالے سے ہندوستان کے’صوفی تھاٹ‘ پر کام کرنے کی ضرورت پر زور دیا اور کہا کہ اس حوالے سے کونسل کی جانب سے اگر کوئی پروجیکٹ تیارکیا جاتا ہے تو رامپور رضا لائبریری کونسل کے ساتھ اشتراک کے لیے تیار ہے۔پروفیسر اقتدار محمد خاں(جامعہ ملیہ اسلامیہ) نے کہا کہ اسلامیات کے موضوع پر غیر مسلم اہل علم کی خدمات اسی طرح دیگر مذاہب کے مطالعے میں مسلم اسکالرز کی کدوکاوش پر بھی تحقیقی و اشاعتی کام ہونا چاہیے۔
پروفیسر زینت شوکت علی نے کہا کہ ہندوستانی فلسفے،تصوف یا قومی ثقافت کے موضوع پر ایسی کتابیں تیار کرنے کی ضرورت ہے،جو عام لوگوں کے لیے قابل فہم ہوں،تبھی ہم اپنے مقصد کو پا سکتے ہیں۔پروفیسر شاہ حسین احمد (پٹنہ)نے کہا کہ مذہبی ہم آہنگی ،ثقافتی تنوع اور تصوف و صوفیا پر کتابوں کی اشاعت کے ساتھ کونسل کے پلیٹ فارم سے ملک کے مختلف شہروں اور صوبوں میں سمینار اور سمپوزیم کابھی انعقاد کیا جانا چاہیے تاکہ ان موضوعات پر مطالعے کا ایک عمومی رجحان پیدا ہوسکے۔ڈاکٹر مبین زہرا (دہلی یونیورسٹی) نے ثقافتی موضوعات خصوصاً تصوف کے حوالے سے خواتین کی علمی و عملی سرگرمیوں پر تحقیق و تالیف پر توجہ دینے کی بات کہی۔ڈاکٹر وارث مظہری(جامعہ ہمدرد،نئی دہلی) نے بھی ہندوستانی مذاہب پر تعارفی لٹریچر کی تیاری اور ہندوستان کے مذہبی تنوع کے خصوصی مطالعے پر زور دیا۔ڈاکٹر حفیظ الرحمن(کنوینر خسرو فاؤنڈیشن، دہلی) نے ہندوستانی ثقافت اور تصوف پر لکھی گئی قدیم اور اہم کتابوں کے ترجمے اور ان کی اشاعت کو وقت کی ضرورت قرار دیا۔
میٹنگ کے دوران ممبران نے اس پینل کے تحت جاری اور مکمل شدہ مختلف پروجیکٹس کی صورتحال کا جائزہ لیا اور ان کے تعلق سے اہم فیصلے لیے گئے۔اس موقعے پر کونسل کے ڈائرکٹر ڈاکٹرشمس اقبال و دیگر شرکا نے باوقار شہری اعزاز’پدم شری‘ سے نوازے جانے پر پروفیسر عین الحسن کا گلدستہ و شال پیش کرکے خصوصی استقبال کیا۔ آخر میں ڈاکٹر شمع کوثر یزدانی(اسسٹنٹ ڈائرکٹر،اکیڈمک) کے اظہارِ تشکر کے ساتھ میٹنگ کا اختتام عمل میں آیا۔اس موقعے پر کونسل سے ڈاکٹر عبدالباری(اسسٹنٹ ایڈیٹر)، نایاب حسن(ریسرچ اسسٹنٹ) اور ڈاکٹر صائمہ ثمرین(پروجیکٹ اسسٹنٹ) وغیرہ بھی موجود رہے۔