اسرائیل کے غزہ پرحملے اور حماس کی جنگ کو دو سال مکمل ہو گئے۔ اسرائیل کے حملوں سے حماس گروپ کچھ حد تک کمزور دکھائی دے رہاہے لیکن جنگ میں مکمل طور پر شکست نہیں قبول کی ہے۔ اسرائیل نے مغربی ایشیا میں اپنے دشمنوں پر حملے کیے لیکن اپنے مطلوبہ اہداف حاصل کرنے میں ناکام رہے۔ یہ جنگ کب ختم ہوگی یہ ایک کھلا سوال ہے۔ قتل، تباہی اور نسل کشی اور دہشت گردی کےدوسال پردنیا بھر میں عوام اسرائیل کےخلاف احتجاج کیا جا رہا ہے۔ اقوام متحدہ اس جنگ کو روکنے میں ناکام ہوچکا ہے۔ چند حکومتوں کو چھوڑ کر اکثر حکومتیں خاموش تماشائی بنی ہوئیں ہیں۔
ہزاروں فلسطینیوں کی شہادت
غزہ کی وزارت صحت کے مطابق غزہ میں 7 اکتوبر 2023 سے 24 ستمبر 2025 تک 65,419 فلسطینی ہلاک اور 1.67 لاکھ زخمی ہوئے۔ 22 فیصد آبادی یعنی 4.70 لاکھ بھوک سے مر رہے ہیں۔ فلسطین میں اقوام متحدہ کی ریلیف اینڈ ورکس ایجنسی نے کہا کہ اسرائیلی حملوں میں اب بھی روزانہ تقریباً 100 افراد ہلاک ہو رہے ہیں۔ ایجنسی نے کہا کہ بہت سے لوگ بھوک اور طبی سہولیات کی کمی سے مر رہے ہیں۔ ایجنسی کے مطابق ایجنسی کے زیر انتظام پناہ گاہوں میں 845 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
غزہ تباہی کی منہ بولتی تصویر
گزشتہ دو سالوں کے دوران غزہ تباہی کا شکار ہے۔ غزہ میں 90 فیصد آبادی بے گھر ہو چکی ہے۔ کئی خاندان غزہ چھوڑنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ 98 فیصد قابل کاشت زمین ناقابل استعمال ہو چکی ہے۔ اسکولوں کی 92 فیصد عمارتیں مکمل طور پر تباہ ہو چکی ہیں۔ 40 فیصد سے زیادہ خاندان کچرا پھینکنے کے صحن میں رہتے ہیں، اور 60 فیصد کو شاور تک رسائی نہیں ہے۔
حماس قیادت کو نقصان
جنگ کےدوران اسرائیل نے حماس کی تمام اعلیٰ قیادت کوعملی طور پر ختم کر دیا ہے۔ 2 جنوری 2024 کو حماس کے نائب سربراہ صالح العروری لبنان میں حزب اللہ کے ٹھکانوں پر اسرائیلی حملے میں مارے گئے۔ اسی سال 13 جولائی کو حماس کے فوجی سربراہ محمد دائف خان یونس میں ایک حملے میں مارے گئے تھے۔ 31 جولائی 2024 کو حماس کے سیاسی سربراہ اسماعیل ہانیہ تہران میں اپنے گھر پر ایک بم حملے میں مارے گئے۔ اسی سال 16 اکتوبر کو حماس کے سربراہ یحییٰ سنوار وسطی غزہ میں ایک عمارت پر اسرائیلی حملے میں مارے گئے تھے۔ حماس کے سربراہ محمد سنوار 14 مئی 2025 کو غزہ میں ایک ہسپتال کے نیچے ایک سرنگ پر فضائی حملے میں مارے گئے تھے۔امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 3 اکتوبر کو ایک سوشل میڈیا پوسٹ میں اعلان کیا تھا کہ حماس اب تک 25,000 جنگجو کھو چکا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ حماس کے تمام کمانڈر مارے گئے ہیں۔
فلسطین بھوک کی آگ میں
سب سے تباہ کن جنگ سمجھی جانے والی اس جنگ میں پورا فلسطین تباہ ہو چکا ہے۔ ہر طرف قحط سالی ہے۔ بہت سے لوگ بھوک سے مرچکے ہیں۔ حماس کی جانب سے غزہ میں جنگ بندی کے لیے ٹرمپ کے 20 نکاتی امن منصوبے کو قبول کرتے ہی خطے میں دو سالہ جنگ ختم ہونے کا امکان ہے۔ فلسطین کےلوگ جنگ کےبعد فاقہ کشی سے مر رہےہیں۔ اسپتالوں میں بنیادی سہولت نہیں ہے۔ علاج مشکل ہو گیا۔ بیرون ممالک سے امداد غزہ تک نہیں پہنچ رہی ہے۔
جنگ میں اسرائیل کا نقصان
اسرائیلی وزارت دفاع کے اعداد و شمار کے مطابق غزہ جنگ کے 7 اکتوبر 2023 سے اب تک 1152 اسرائیلی فوجی ہلاک ہو چکے ہیں اور ہلاک فوجیوں میں سےتقریباً 42 فیصد کی عمریں 21 سال سے کم تھیں۔ اسرائیلی وزارت دفاع کے مطابق ہلاک اسرائیلیوں کا تعلق فوج، پولیس، شن بیٹ ایجنسی اور کارپورلز سے ہے۔
اسرائیل کا دعویٰ ہے کہ، حماس نے 7 اکتوبر 2023 کو حملہ کرتے ہوئے 1200 افراد کو ہلاک جبکہ 251 کو یرغمال بنا لیا تھا۔ اس میں سے بیشتر یرغمالیوں کو حماس نے فلسطینی قیدیوں کے بدلے رہا کر دیا اب 48 یرغمالی تنظیم کے قبضے میں ہیں جس میں اسرائیل کا خیال ہے کہ نصف سے زائد ہلاک ہو چکے ہیں۔
دنیا بھر میں اسرائیل مخالفت احتجاج
عالمی عدالت انصاف کی جانب سے غزہ میں اسرائیل کی فوجی کارروائیوں کو نسل کشی سے تعبیر کرنے اور وزیراعظم نتن یاہو کے خلاف وارنٹ گرفتاری جاری کیا گیا ہے۔ دنیا بھر میں آج بھی فلسطینیوں کے حق میں احتجاجی مظاہرے جاری ہیں۔کئی یوروپی اور مغربی ممالک جو کبھی امریکہ اور اسرائیل کے سچے ساتھی رہے ہیں، انھوں نے فلسطینی ریاست کو قبول کر لیا ہے۔ فرانس، اندورا، بیلجیئم، لکسمبرگ، مالٹا اور موناکو نے اقوام متحدہ میں ایک اعلیٰ سطحی اجلاس کے آغاز میں فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا اعلان یا تصدیق کی جس کا مقصد مشرق وسطیٰ کے تنازعے کے دو ریاستی حل کے لیے حمایت حاصل کرنا ہے۔
کیا غزہ میں جنگ ختم ہونے والی ہے؟
غزہ میں جنگ کے دو سال بعد ایک ایسے معاہدے کا امکان ہے جو غزہ میں قتل و غارت گری اور تباہی کا کا خاتمہ کرے گا اور اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی ممکن بنا سکے گا۔ اس عرصے میں جو یرغمالی مر گئے ہیں ان کی لاشیں واپس اسرائیل لائی جا سکیں گی۔یہ ایک موقع تو ہے مگر یہ یقینی نہیں ہے کہ حماس اور اسرائیل اس سے فائدہ اٹھا سکیں گے۔یہ محض ایک اتفاق ہے کہ یہ مذاکرات حماس کی طرف سے اسرائیل پر حملے کے ٹھیک دو سال بعد ہونے جا رہے ہیں۔
20 نکاتی غزہ امن منصوبہ
حماس اور اسرائیلی مذاکرات کار آمنے سامنے نہیں بات کریں گے۔ مصری اور قطری حکام ثالث ہوں گے اور جو امریکی بھی ہوں گے اور شاید یہ فیصلہ کن کردار ہو گا۔مذاکرات کی بنیاد ڈونلڈ ٹرمپ کا 20 نکاتی غزہ امن منصوبہ ہے۔اس معاہدے میں مغربی کنارے کے مستقبل کے بارے میں کچھ نہیں بتایا گیا ہے۔ یہ اس خطے کا دوسرا حصہ ہے جسے برطانیہ سمیت دیگر ممالک نے فلسطینی ریاست کے طور پر تسلیم کیا ہے۔شرم الشیخ میں جاری مذاکرات بہت اہمیت کے حامل ہیں۔ اس بات کا امکان موجود ہے کہ ایک صدی سے زائد عرصے سے عربوں اور یہودیوں میں جاری تباہ کن اور خونریز جنگ کا خاتمہ کر سکے۔ پہلا چیلنج اسرائیلی جیلوں میں عمر قید کی سزا کاٹنے والے فلسطینی قیدیوں اور گذشتہ دو برس سے بغیر کسی ٹرائل کے غزہ سے گرفتار کیے جانے والوں کے بدلے میں حماس کی حراست میں یرغمالیوں کی رہائی کی شرائط طے کرنا ہے۔