امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے غزہ کا کنٹرول سنبھالنے کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ غزہ کو دوبارہ تعمیر کریں گے جو جنگ سے تباہ ہو چکا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ تعمیر نو کا کام مکمل ہونے تک غزہ کے لوگوں کو کسی نہ کسی عرب ملک میں آباد کرنا پڑے گا۔ ان کے اس منصوبے کو عرب دنیا اور دنیا کے دیگر ممالک نے مسترد کر دیا ہے۔ ٹرمپ نے اس خواہش کا اظہار ایسے وقت کیا ہے جب غزہ میں جنگ بندی جاری ہے۔ جب سے یہ جنگ بندی نافذ ہوئی ہے، غزہ کے مستقبل کے بارے میں غیر یقینی صورتحال پیدا ہو گئی ہے۔ اقوام متحدہ کا اندازہ ہے کہ 15 ماہ سے جاری لڑائی کے دوران غزہ کی دو تہائی سے زیادہ عمارتیں کمزور یا تباہ ہو چکی ہیں۔
ڈونلڈ ٹرمپ کا تازہ بیان مشرق وسطیٰ کے حوالے سے امریکی پالیسی میں بڑی تبدیلی کا عندیہ ہے۔ اب تک امریکہ دو قومی نظریہ کو تسلیم کرتا تھا۔ وہ اسرائیل کے ساتھ ساتھ ایک آزاد اور خودمختار فلسطینی ریاست کے حامی رہے ہیں۔ اس میں غزہ اور اسرائیل کے زیر قبضہ مغربی کنارہ بھی شامل ہے اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو نے ٹرمپ کے بیان کو قابل ذکر قرار دیا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کا تازہ بیان مشرق وسطیٰ کے حوالے سے امریکی پالیسی میں بڑی تبدیلی کا اشارہ دے رہاہے۔
حماس نے 7 اکتوبر 2023 کو اسرائیل پر حملہ کیا۔ اس حملے میں 1200 سے زائد اسرائیلی شہری مارے گئے تھے۔ حماس کے جنگجوؤں نے 200 سے زائد افراد کو یرغمال بنا لیا تھا۔ غزہ میں اسرائیل کی کارروائی میں تقریباً 60 ہزار افرادشہید اور ایک لاکھ سے زائد زخمی ہو چکے ہیں۔ غزہ پر اسرائیلی کارروائی میں ہلاک ہونے والی خواتین اور بچوں کی تعداد زیادہ ہے۔
غزہ کی تعمیر نو کے کام کا پیمانہ بہت بڑا ہوگا۔ سب سے پہلے وہاں سے نہ پھٹنے والے ہتھیاروں اور ملبے کے پہاڑ ہٹانے ہوں گے۔ اس کے بعد وہاں پانی اور بجلی کی سپلائی بحال کرنی ہوگی۔ اسکولوں، اسپتالوں اور دکانوں کو دوبارہ تعمیر کرنے کی ضرورت ہوگی۔ اس کام میں کئی سال لگ سکتے ہیں۔ جب تک یہ سلسلہ جاری رہے گا، فلسطینیوں کو کہیں نہ کہیں جانا پڑے گا۔ ایسی صورت حال میں ان لوگوں کو غزہ کے وسطی اور جنوبی علاقوں میں ان کے گھروں کے قریب خیموں میں رکھا جا سکتا ہے۔ لیکن ٹرمپ بجائے خود انہیں غزہ سے نکالنے کی بات کر رہے ہیں۔
اسرائیلی حملے میں غزہ کی 57 فیصد قابل کاشت اراضی تباہ ہو گئی ہے۔اقوام متحدہ کے اداروں کے مطابق غزہ میں اس وقت جمع ہونے والے تمام کچرے کو ہٹانے میں کم از کم 21 سال لگیں گے۔ ان کا کہنا ہے کہ گزشتہ 15 ماہ کی جنگ میں پیدا ہونے والا ملبہ 2008 کے بعد سے غزہ کی لڑائی میں پیدا ہونے والے ملبہ سے 17 گنا زیادہ ہے۔ اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ یکم دسمبر 2024 تک غزہ میں 5 کروڑ 7 لاکھ 73 ہزار ٹن سے زائد ملبہ پڑا ہے۔ اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ اگر اس کچرے کو ری سائیکلنگ کے بغیر ہٹا دیا جائے اور اس کام کے لیے روزانہ 105 ٹرک استعمال کیے جائیں تو سارا ملبہ ہٹانے میں 20 سال سے زیادہ کا وقت لگ سکتا ہے۔ اس پر نو ارب ڈالر سے زائد خرچ ہو سکتا ہے ۔اسرائیلی بمباری سے غزہ کی دو تہائی عمارتیں تباہ ہو چکی ہیں۔ اس جنگ کے دوران وہاں کی 57 فیصد قابل کاشت زمین بھی تباہ ہو گئی تھی۔ غزہ میں 92 فیصد مکانات تباہ ہو چکے ہیں۔