آسام میں بنگالی بولنے والے مسلمانوں کو بنگلہ دیشی ہونے کے شبہ میں ہراساں کرنے اور ان کے خلاف نفرت میں اضافے کے حوالے سے ایک رپورٹ منظر عام پر آئی ہے۔ اس رپورٹ میں انکشاف ہوا ہے کہ بی جے پی لیڈر اور آسام کے وزیر اعلیٰ ہمانتا بسوا شرما بنگالی بولنے والے مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلانے کی مہم کو بڑھاوا دے رہے ہیں۔ واشنگٹن، امریکہ میں قائم ایک وکالت اور تحقیقی گروپ انڈین ہیٹ لیب نے ایک رپورٹ جاری کی ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق آسام میں بنگالی مسلمانوں کے خلاف زبان کی بنیاد پر ظلم بڑھتا جا رہا ہے۔
سلام ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق جاری کردہ رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ چیف منسٹر ہمانتا بسوا شرما نے مئی کے مہینے میں بنگلہ دیش کی سرحد سے متصل علاقوں میں اسلحہ لائسنس دینے کے قوانین میں تبدیلی کی ہے۔ حکومت نے دلیل دی کہ اس کا مقصد غیر قانونی خطرات سے بچنا ہے۔ اس پر کانگریس پارٹی کے لیڈر گورو گوگوئی نے سوال اٹھاتے ہوئے حکومت سے کہا کہ وہ لوگوں کو روزگار دے نہ کہ ہتھیار۔
رپورٹ میں یہ بھی دعویٰ کیا گیا ہے کہ بی جے پی لیڈروں کی حمایت یافتہ تقریبات میں مسلم مخالف بیانات اور تقاریر بڑھ رہی ہیں۔ آپ کو بتاتے چلیں کہ آسام میں مبینہ روہنگیا اور بنگلہ دیشیوں کو آسام سے بے دخلی مہم کے تحت نو مینز لینڈ میں دھکیلا جا رہا ہے۔ اس رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ ان کارروائیوں پر بی جے پی کے حامیوں کی طرف سے جشن منایا جا رہا ہے اور ان کے کاروبار اور گھروں کو تباہ کرنے کی کالیں کی جا رہی ہیں۔
غور طلب ہے کہ آسام میں بنگالی بولنے والوں پر ظلم و ستم کو لے کر مغربی بنگال کی وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی اور آسام کے وزیر اعلیٰ ہمانتا بسوا کے درمیان سوشل میڈیا پر آمنے سامنے ہے۔ اس سے پہلے وزیر اعلیٰ ممتا نے ریلی نکال کر احتجاج بھی کیا تھا۔ وہ کہتی ہیں کہ ایک خفیہ حکم کے تحت بنگالی بولنے والے لوگوں کو ہراساں کیا جا رہا ہے، انہیں حراستی مراکز میں رکھا جا رہا ہے اور بی جے پی کی حکومت والی ریاستوں میں ملک بدر کیا جا رہا ہے۔ جسے ہمانتا بسوا شرما غیر قانونی بنگلہ دیشی دراندازیوں کے خلاف کارروائی کا نام دے رہے ہیں۔اس نام پر وہاں کے بنگالی مسلمانوں کے ساتھ ظلم وستم کے پہاڑ ڈھائے جا رہے ہیں۔