ٹرمپ انتظامیہ اور امریکہ کی ہارورڈ یونیورسٹی کے درمیان شروع ہونے والا تنازع اب بڑھتا جا رہا ہے۔ تنازع اتنا بڑھ گیا ہے کہ اب سارا معاملہ عدالت میں پہنچ گیا ہے۔ دراصل ہارورڈ یونیورسٹی نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ کے خلاف 2.2 بلین امریکی ڈالر (تقریباً 18 ہزار کروڑ روپے) کی فنڈنگ روکنے کی دھمکی پر مقدمہ دائر کیا ہے۔یونیورسٹی کے صدر ایلن ایم گاربر نے ٹرمپ انتظامیہ پر غلط کنٹرول کرنے کی کوشش کا الزام لگایا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ حکومت کے اس اقدام کے سنگین اور طویل مدتی نتائج برآمد ہوں گے۔
ہارورڈ یونیورسٹی کی جانب سے وفاقی عدالت میں دائر کیے گئے مقدمے میں الزام لگایا گیا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ نے اربوں ڈالر کی وفاقی فنڈنگ روک کر ادارے کے آئینی حقوق کی خلاف ورزی کی ہے۔ یہ مقدمہ ٹرمپ انتظامیہ کے ہارورڈ کو 9 بلین ڈالر کی فنڈنگ کا جائزہ لینے اور 2.3 بلین ڈالر کی فنڈنگ کو پہلے ہی منجمد کرنے کے اقدام کے جواب میں سامنے آیا ہے۔ ہارورڈ کا دعویٰ ہے کہ یہ کارروائی یونیورسٹی کی آزادی اور اظہار رائے کی آزادی کو مجروح کرتی ہے۔
رپورٹ کے مطابق ہارورڈ یونیورسٹی کے صدر ایلن گاربر نے کمیونٹی پیغام میں کہا کہ حکومتی حد سے تجاوز کے نتائج سنگین اور طویل مدتی ہوں گے۔ گاربر نے دلیل دی کہ فنڈنگ میں کٹوتیوں سے تحقیق کے بہت سے شعبوں کو خطرہ لاحق ہو جاتا ہے، جن میں بچوں کے کینسر، متعدی بیماری کا پھیلنا، اور زخمی فوجیوں کی تکالیف کو کم کرنا شامل ہے۔انہوں نے کہا کہ وفاقی تحقیقی فنڈ میں اربوں ڈالر کی روک تھام کے ہارورڈ کے تحقیقی پروگراموں، اس کے مستفید ہونے والوں، اختراعات اور پیشرفت کے لیے اہم نتائج ہوں گے۔ ہارورڈ نے انتظامیہ پر الزام لگایا کہ وہ یونیورسٹی کے تعلیمی فیصلوں کو کنٹرول کرنے کے لیے فنڈنگ کو ہتھیار بنانے کی کوشش کر رہی ہے۔
آپ کو بتاتے چلیں کہ ٹرمپ انتظامیہ نے 11 اپریل کو ہارورڈ یونیورسٹی کو ایک خط لکھا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ یونیورسٹی میں بڑے پیمانے پر اصلاحات اور داخلوں کے لیے بنائی گئی پالیسیوں میں تبدیلی کی ضرورت ہے۔ انتظامیہ نے کہا تھا کہ یونیورسٹی میں کچھ اسٹوڈنٹس کلبوں کو تسلیم نہیں کیا جانا چاہیے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے ہارورڈ یونیورسٹی کو ایک خط لکھ کر مطالبہ کیا کہ یونیورسٹی کیمپس میں تنوع کے بارے میں اپنے خیالات کا آڈٹ کرے اور بعض طلبہ کلبوں کو تسلیم کرنا بند کرے۔
اس سے قبل 3 اپریل کو ٹرمپ انتظامیہ نے یونیورسٹی کے سامنے مطالبہ کیا تھا کہ حکومت کو یونیورسٹی کی گورننس، داخلہ اور بھرتی کے عمل کا کنٹرول دیا جائے اور ان میں بڑی تبدیلیاں کی جائیں۔ اس کے علاوہ ڈائیورسٹی آفس کو بند کرنے اور بین الاقوامی طلباء کی تحقیقات میں امیگریشن افسران کی مدد کرنے کا بھی مطالبہ کیا گیا۔ ہارورڈ نے ان مطالبات کو غیر قانونی اور غیر آئینی قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا۔ اس کے بعد ٹرمپ انتظامیہ نے ہارورڈ یونیورسٹی کو 2.2 بلین ڈالر سے زیادہ کی گرانٹ روک دی۔