شیوسینا (یو بی ٹی) کے سربراہ اور مہاراشٹر کے سابق وزیر اعلیٰ ادھو ٹھاکرے اور ایم این ایس سربراہ راج ٹھاکرے کے درمیان قربت کی خبروں نے ریاست کے سیاسی ماحول کو گرما دیا ہے۔ بی جے پی سے لے کر این سی پی تک سبھی پارٹیوں نے اس پر اپنا ردعمل دیا ہے۔ شیوسینا راجیہ سبھا ایم پی سنجے راوت نے ایک بیان دے کر دونوں بھائیوں کے ایک ساتھ آنے کی قیاس آرائیوں کو ہوا دی ہے۔
سنجے راوت نے دعویٰ کیا کہ ادھو ٹھاکرے اپنے کزن راج ٹھاکرے کے ساتھ مفاہمت کے بارے میں بہت مثبت ہیں۔ صحافیوں سے بات کرتے ہوئے انہوں نے دعویٰ کیا کہ امبیڈکر موومنٹ تحریک سے وابستہ لوگ اور جماعتیں بھی اس ممکنہ مفاہمت کے سلسلے میں رابطے میں ہیں اور وہ اس نئے سیاسی اتحاد کا حصہ بننے میں دلچسپی ظاہر کر رہے ہیں۔ راجیہ سبھا کے رکن سنجے راوت نے کہا کہ ہندوستانی آئین کے معمار ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر نے بھی "متحدہ مہاراشٹر تحریک" کی قیادت کی تھی اور 'مراٹھی مانوس' کے اتحاد کے لیے کوششیں کی تھیں۔ 1950 میں شروع ہونے والی اس تحریک کا مقصد مراٹھی بولنے والوں کے لیے الگ مہاراشٹر ریاست کا قیام تھا۔
:کسی تیسرے شخص کی ضرورت نہیں
سنجے راوت نے کہا کہ ادھو اور راج کے درمیان ہونے والی بات چیت میں کسی تیسرے شخص کی ضرورت نہیں ہے۔ میں جانتا ہوں کہ وہ ایک دوسرے اور اپنے خاندان کے لیے کیا جذبات رکھتے ہیں۔ سیاست کی وجہ سے تعلقات نہیں ٹوٹتے۔ ادھو اس مفاہمت کو لے کر بہت مثبت ہیں۔ ان کا رویہ مہاراشٹر اور مراٹھی مانوس کے مفاد میں بہت مثبت ہے۔سیاسی حریفوں ادھو اور راج ٹھاکرے کے بیانات نے تقریباً دو دہائیوں قبل ان کی علیحدگی کے بعد دونوں کے درمیان مفاہمت کی قیاس آرائیوں کو ہوا دی ہے۔ دونوں نے اشارہ دیا ہے کہ وہ 'چھوٹے مسائل' کو نظر انداز کرتے ہوئے مراٹھی مفادات کے لیے اکٹھے ہو سکتے ہیں۔
متحد ہونا مشکل نہیں، راج ٹھاکرے:
جہاں ایم این ایس کے سربراہ راج ٹھاکرے نے کہا ہے کہ مراٹھی مانوس کے مفاد میں متحد ہونا مشکل نہیں ہے، سابق وزیر اعلیٰ ادھو ٹھاکرے نے کہا تھا کہ وہ معمولی مسائل کو بھلانے کے لیے تیار ہیں، بشرطیکہ مہاراشٹر مخالف عناصر کو جگہ نہ دی جائے۔ راج ٹھاکرے نے 2005 میں شیو سینا سے علیحدگی اختیار کی اور 2006 میں اپنی پارٹی MNS کی بنیاد رکھی۔ اس کے بعد وقتاً فوقتاً انہوں نے بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی مخالفت اور حمایت بھی کی۔