• News
  • »
  • عالمی منظر
  • »
  • امریکی مقرر مرسڈیز سوریا مصنوعی ذہانت پر مبنی سلامتی کو فروغ دے رہی ہیں، جس سے خود مختار روبوٹوں کے ذریعے امریکہ کو زیادہ محفوظ بنایا جا رہا ہے۔

امریکی مقرر مرسڈیز سوریا مصنوعی ذہانت پر مبنی سلامتی کو فروغ دے رہی ہیں، جس سے خود مختار روبوٹوں کے ذریعے امریکہ کو زیادہ محفوظ بنایا جا رہا ہے۔

Reported By: Munsif TV | Edited By: Sahjad Mia | Last Updated: Apr 19, 2025 IST     

image

چاروی اروڑا


کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ اگر اعلیٰ تکنیک سے لیس روبوٹ آپ کے محلے میں گشت کرنے لگیں  اور شر انگیزی کے قلع قمع کے لیے وہاں کی نگرانی کرنے لگیں تو کیسا ہوگا؟ یہ بات اب افسانوی نہیں رہی ، مصنوعی ذہانت سے چلنے والے روبوٹ اب حقیقت بن چکے ہیں۔
 
اس مستقبل پر مبنی ویژن کے پیچھے مرسڈیز سوریا کا دماغ ہے، جو ایک ایسی کمپنی میں کام کرتی ہیں جو خودمختار  حفاظتی روبوٹ بناتی ہے ۔ ان روبوٹوں کو حقیقی وقت میں ممکنہ خطرات کا پتہ لگانے، کسی  حادثے کو روکنے اور ان کی جانکاری دینے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے۔ سلی کان وَیلی میں واقع کمپنی نائٹ اسکوپ میں ایگزیکٹو نائب صدر اور چیف انٹیلی جنس آفیسر کی حیثیت سے سوریا ایک وقت میں ایک الگورِدم کے ذریعے عوامی تحفظ کو بہتر بنا رہی ہیں۔
 
انہوں نے ۲۰۲۴ء میں یو ایس اسپیکر پروگرام کے تحت بینگالورو، پونہ اور نئی دہلی کا دورہ کیا ۔ دورے کی کفالت محکمہ خارجہ نے کی تھی۔ اپنی مصروفیات کے دوران، انہوں نے صنعت کے رہنماؤں، اے آئی ماہرین اور نوجوان اختراع کاروں سے ملاقات کی اور اے آئی اور جدید ٹیکنالوجیوں کے بارے میں اپنی بصیرت ساجھا کی۔
 

پیشِ خدمت ہیں اسپَین میگزین کو دیے گئے ایک انٹرویو کے منتخب اقتباسات۔

سکیورٹی  کو بہتر بنانے کے لیے نائٹ اسکوپ ٹیکنالوجی کا کس طرح فائدہ اٹھا رہا ہے اور اس کی کچھ اہم اختراعات کیا ہیں؟

نائٹ اسکوپ میں ہمارا مقصد امریکہ کو دنیا کا سب سے محفوظ ترین ملک بنانا ہے۔ تاہم، اس سطح کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے ہمارے پاس کافی تعداد میں  حفاظتی گارڈاور پولیس افسران موجود نہیں ہیں۔ اس چیلنج سے نمٹنے کے لیے ہم نے پہیوں، کیمروں اور جدید کمپیوٹنگ سے لیس ایک روبوٹ تیار کیا ہے۔ یہ خودمختار نظام چوبیس گھنٹے نگرانی فراہم کرتا ہےاور ہر لمحے کو بلا تعطل ریکارڈ کرتا ہے۔
ہمارے مشین لرننگ الگورِدم حقیقی وقت میں ڈیٹا کا تجزیہ کرتے ہیں، بے ضابطگیوں کا پتہ لگاتے ہیں اور ضرورت پڑنے پر انسانی عملے کو اس کی جانکاری دیتے ہیں۔ اس طرح ہم کمپنیوں کو جسمانی تحفظ کی لاگت کم کرنے میں مدد فراہم کرتے ہیں۔ 
 
ہماری نمایاں اختراعات میں سے ایک کے فائیو آٹونومس سکیورٹی  روبوٹ ہے، جو اے آئی پر مبنی  ایک خودکار سکیورٹی  روبوٹ ہے جو املاک اور عوامی مقامات پر گشت کرتا ہے۔ اسے سافٹ ویئر کے ذریعے دور سے مانیٹر کیا جا سکتا ہے ۔ نائٹ اسکوپ کی ٹیم اس کی دیکھ بھال کر سکتی ہے۔
 

آپ ان ٹیکنالوجیوں  کو تحفظ فراہم کرنے والی صنعت کے مستقبل کو کس طرح متعین کرتے ہوئے دیکھتی ہیں؟ 

تحفظ فراہم کرنے والی صنعت  دو اہم شعبوں میں منقسم  ہے: سائبر سکیورٹی  اور فزیکل سکیورٹی  ۔ نائٹ اسکوپ زیادہ تر فزیکل سکیورٹی  پر روبوٹکس کے ذریعے توجہ مرکوز کرتی ہے۔
 
ماضی میں، ممکنہ مداخلتوں کا پتہ لگانے کے لیے فون اور کمپیوٹر جیسے آلات پر حفاظتی آلات نصب کیے جاتے تھے۔ جنریٹیو اے آئی کی مدد سے یہ سسٹم نہ صرف خطرات کا پتہ لگاتے ہیں بلکہ انہیں فعال طور پر بلاک بھی کرتے ہیں۔ اے آئی ہیکنگ کی کوششوں، فشنگ(سائبر فِشنگ ایک آن لائن طریقہ ہے جس میں جعلی ای میلس، ویب سائٹس یا پیغامات کے ذریعے لوگوں سے ان کی ذاتی معلومات حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے، جیسے کہ پاسورڈ، کریڈٹ کارڈ نمبر وغیرہ) یا غیر مجاز رسائی کی نشاندہی کر سکتا ہے اور خلاف ورزیوں کو روکنے کے لیے فوری کارروائی کر سکتا ہے۔اے آئی کی مدد سے چلنے والے حفاظتی حلوں میں یہ پیش رفت ڈیجیٹل دنیا میں کمپنیوں اور افراد دونوں کے تحفظ کو نمایاں طور پر بڑھا سکتی ہے۔ 
 

جنریٹیو اے آئی میں کچھ ابھرتے ہوئے رجحانات کیا ہیں جو آپ کو خاص طور پر قابل ذکر لگتے ہیں؟

سب سے زیادہ دلچسپ رجحانات میں سے ایک، خاص طور پر نوجوان اختراعی افراد کے لیے یہ ہے کہ جنریٹیو اے آئی نے کوڈنگ تک رسائی کو آسان بنا دیا ہے۔ آج، آپ کو ٹیک کمپنی شروع کرنے کے لیے پروگرامر بننے کی ضرورت نہیں ہے۔ بڑے لینگویج ماڈلس کے ساتھ — ایڈوانسڈ اے آئی سسٹمس جو وسیع مقدار میں مواد پر تربیت حاصل کر کے انسانی زبان کو سمجھنے اور تخلیق کرنے میں ماہر ہیں — آپ اپنی ضروریات کو صرف بیان کر سکتے ہیں۔ ایک بار جب اِن پُٹ، آؤٹ پُٹ اور مراحل کی وضاحت ہو جائے، تو اے آئی آپ کے لیے کوڈ تیار کر لے گا۔ اس نے ہر کسی کے لیے  اپنے خیال کو تکنیک کے ذریعے حقیقت میں بدلنے کا دروازہ کھول دیا ہے۔ 
 
ایک اور اہم رجحان اے آئی کے استعمال کے حوالے سے کیا کرنا چاہیے اور کیا نہیں کرنا چاہیے، اس کی سمجھ حاصل کرنا ہے۔ اگرچہ اے آئی ایک طاقتورمعاون  ہو سکتا ہے، لیکن اس پر اندھےاعتماد  سے گریز کرنا مناسب ہے۔ مزید برآں، ہم دیکھ رہے ہیں کہ بڑی ٹیک کمپنیاں اپنے الگورِدم  تیار کر رہی ہیں، جن میں سے ہر ایک میں اپنی مخصوص طاقت ہے۔ کچھ کو مختلف اقسام کے ڈیٹا کو سنبھالنے کے لیے بہتر بنایا گیا ہے، کچھ کو رفتار کے لیے اور کچھ کو بات چیت کے تعاملات میں مہارت حاصل ہے۔
 
آخرکار، اوپن سورس اے آئی تیزی سے مقبول ہو رہا ہےجو ایک متبادل پیش کررہاہے جس کے ذریعے دنیا بھر کے انجینئروں کے درمیان تعاون کو فروغ ملتا ہے، اور طاقتور ٹولس تخلیق کیے جاتے ہیں جو کم یا بغیر کسی قیمت کے قابل رسائی ہیں۔
 

ہندوستان میں آپ کی مصروفیات سے آپ کے اہم اخذ کردہ نتائج کیا ہیں؟ 

میرے لیے سب سے بڑی باتوں میں سے ایک اے آئی کے حوالے سے دلچسپ بات چیت تھی۔ ہندوستان ٹیکنالوجی میں زبردست پیش رفت کررہا ہےحالا ں کہ  امریکہ میں صارفین سے تعامل زیادہ ترقی یافتہ ہوسکتا ہے مگر یہ فرق زیادہ اہم نہیں ہے۔ میں ہندوستان میں ہو رہی اختراعات کی سطح کو دیکھ کر بہت پرجوش تھی۔
 

بشکریہ اسپَین میگزین، امریکی سفارت خانہ، نئی دہلی