پارلیمنٹ میں ’وندے ماترم‘ پر ہونے والی بحث کے تناظر میں جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا ارشد مدنی نے کہا، ’’ہمیں کسی کے وندے ماترم پڑھنے یا گانے پر کوئی اعتراض نہیں ہے، لیکن ہم اس بات کا اعادہ کرنا چاہتے ہیں کہ مسلمان صرف ایک اللہ کی عبادت کرتے ہیں اور اپنی عبادت میں کسی اور کو شامل نہیں کرسکتے‘‘۔
انہوں نے مزید کہا کہ "وندے ماترم" کی گیت کی کچھ سطریں مذہبی نظریات پر مبنی ہیں جو اسلامی عقیدے کے خلاف ہیں۔ خاص طور پر، اس کے چار بند ملک کو "درگا ماتا" جیسی دیوی کے طور پر پیش کرتے ہیں اور پوجا کے ایسے الفاظ استعمال کرتے ہیں جو کسی بھی مسلمان کے بنیادی عقائد کے خلاف ہیں۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ ہندوستانی آئین ہر شہری کو مذہبی آزادی (آرٹیکل 25) اور اظہار رائے کی آزادی (آرٹیکل 19) دیتا ہے۔ ان حقوق کے تحت کسی بھی شہری کو کوئی ایسا نعرہ، گانا یا خیال اپنانے پر مجبور نہیں کیا جا سکتا جو ان کے مذہبی عقائد کے خلاف ہو۔
مولانا مدنی نے کہا کہ سپریم کورٹ نے بھی واضح طور پر فیصلہ دیا ہے کہ کسی بھی شہری کو قومی ترانہ یا کوئی ایسا گانا گانے پر مجبور نہیں کیا جا سکتا جو ان کے مذہبی عقائد کے خلاف ہو۔
انہوں نے کہا کہ اپنے ملک سے محبت ایک چیز ہے اور اس کی عبادت دوسری چیز ہے۔ مسلمانوں کو اس ملک سے اپنی محبت ثابت کرنے کے لیے کسی سرٹیفکیٹ کی ضرورت نہیں۔ جدوجہد آزادی میں مسلمانوں اور جمعیۃ علماء ہند کے بزرگوں کی قربانیاں اور خاص کر ملک کی تقسیم کے خلاف جمعیۃ علماء ہند کی کوششیں روز روشن کی طرح عیاں ہیں۔ آزادی کے بعد بھی ملک کے اتحاد اور سالمیت کے لیے ان کی کوششوں کو فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ہم نے ہمیشہ کہا ہے کہ حب الوطنی کا تعلق دل اور عمل کی سچائی سے ہے نعرہ بازی سے نہیں۔
وندے ماترم کے بارے میں مولانا مدنی نے کہا کہ تاریخی ریکارڈ واضح طور پر بتاتے ہیں کہ 26 اکتوبر 1937 کو رابندر ناتھ ٹیگور نے پنڈت جواہر لال نہرو کو ایک خط لکھا جس میں مشورہ دیا گیا کہ وندے ماترم کے صرف پہلے دو بندوں کو ہی قومی گیت کے طور پر قبول کیا جائے، کیونکہ باقی ماندہ مصرعے مذہب کے خلاف تھے۔
اسی بنیاد پر 29 اکتوبر 1937 کو کانگریس ورکنگ کمیٹی نے فیصلہ کیا کہ صرف دو بندوں کو قومی گیت کے طور پر قبول کیا جائے گا۔ لہٰذا آج ٹیگور کے نام کا غلط استعمال کرکے زبردستی پورا گانا گانے کی کوشش نہ صرف تاریخی حقائق کو جھٹلانے کی کوشش ہے بلکہ قومی یکجہتی کے جذبے کی توہین بھی ہے۔یہ بھی بدقسمتی کی بات ہے کہ کچھ لوگ اس معاملے کو ملک کی تقسیم سے جوڑتے ہیں، جب کہ ٹیگور کا مشورہ قومی اتحاد کے لیے تھا۔
مولانا مدنی نے زور دے کر کہا کہ وندے ماترم سے متعلق بحث کو مذہبی عقائد اور آئینی حقوق کے احترام کے دائرے میں چلایا جانا چاہیے، نہ کہ سیاسی الزام کے طور پر۔جمعیۃ علماء ہند تمام قومی قائدین سے اپیل کرتی ہے کہ وہ ایسے حساس مذہبی اور تاریخی مسائل کو سیاسی فائدے کے لیے استعمال نہ کریں بلکہ ملک میں باہمی احترام، رواداری اور اتحاد کو فروغ دینے کے لیے اپنی آئینی ذمہ داری کو پورا کریں۔
"وندے ماترم" بنکم چندر چٹرجی کے ناول "آنند مٹھ" کا ایک اقتباس ہے۔ اس میں کئی سطریں اسلام کے مذہبی اصولوں کے خلاف ہیں جس کی وجہ سے مسلمان اس گانے کو گانے سے گریز کرتے ہیں۔
"وندے ماترم" کا پورا مطلب ہے "ماں، میں تیری پوجا کرتا ہوں۔"ان الفاظ سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ یہ گانا ہندو دیوی درگا کی تعریف میں لکھا گیا تھا نہ کہ مدر انڈیا۔اسلام توحید پر مبنی مذہب ہے، ایک خدا کی عبادت کرتا ہے جس کا کوئی شریک نہیں۔ کسی ملک یا ماں کی پوجا کرنا اس اصول کے خلاف ہے۔
وندے ماترم گانا ماں کو جھکنے اور پوجا کرنے کی بات کرتا ہے، جب کہ اسلام اللہ کے علاوہ کسی اور کو جھکنے اور اس کی عبادت کرنے سے منع کرتا ہے۔ ہم ایک خدا پر یقین رکھتے ہیں۔ ہم کسی اور کو عبادت کے لائق نہیں سمجھتے اور نہ ہی کسی کے آگے سجدہ کرتے ہیں۔ اس لیے ہم اسے کسی بھی صورت میں قبول نہیں کر سکتے۔ موت تو قبول ہے لیکن شرک (اللہ کے ساتھ کسی چیز کو شریک کرنا) ناقابل قبول ہے۔ ہم مریں گے تو اسلام پرجییں گے تو اسلام پر،انشاء اللہ۔
مولانا مدنی نے سوال کیا کہ کیا ملک میں اتنے متنازعہ مسائل کے علاوہ کوئی ایسا مسئلہ نہیں ہے جس پر پارلیمنٹ میں بحث کی جائے جو ملک اور اس کے عوام کے مفاد میں ہو؟ انہوں نے کہا کہ ملک کی معاشی اور مالی صورتحال کے حوالے سے جو رپورٹس سامنے آرہی ہیں وہ انتہائی تشویشناک ہیں۔ اگر اس پر فوری توجہ نہ دی گئی تو ملک کو بڑے معاشی بحران کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
لیکن بدقسمتی سے، یہ مسئلہ بڑی حد تک زیر بحث ہی رہتا ہے، کیونکہ اس طرح کی بحثیں نہ تو ووٹ حاصل کرتی ہیں اور نہ ہی معاشرے کو مذہبی خطوط پر تقسیم کرتی ہیں۔ ان دنوں یہ الیکشن جیتنے کا ایک آزمودہ اور درست طریقہ بن گیا ہے۔