آل انڈیا مسلم پرسنل لابورڈ(AIMPLB) کے ایک اعلیٰ سطحی وفد نے جمعرات مرکزی وزیربرائے اقلیتی امور کرن رجیجو سے اُنکے پارلیمانی چیمبر میں تفصیلی ملاقات کی۔ وفد نے کئی مطالبات پر مشتمل ایک یادداشت بھی مرکزی وزیر کو پیش کی۔ اس وفد میں AIMIM کے صدر اور رکن پارلیمنٹ اسد الدین اویسی اور آزاد سماج پارٹی کے سربراہ و رکن پارلیمنٹ چندرشیکھر آزاد بھی شامل تھے۔ دونوں رہنماؤں نے زور دیا کہ حکومت کو ایسے اقدامات کرنے چاہئیں جو نہ صرف آئینی ضمانتوں کومضبوط کریں بلکہ اقلیتی برادری کا اعتماد بھی بحال کریں،ساتھ ہی وقف کی اراضی کے رجسٹریشن کیلئے بنائے گئے امید پورٹل کو مزید بہتر بنایاجائے گا۔
امید پورٹل کی مشکلات اور تکنیکی مسائل کی جانکاری دی
میٹنگ میں وفد نے امید(UMEED) پورٹل پر رجسٹرڈ وقف املاک کو اپ لوڈ کرنے کے دوران درپیش مشکلات اور تکنیکی مسائل کے بارے میں تفصیل سے بتایا، جس کی وجہ سے لاکھوں جائیدادوں کی رجسٹریشن نہیں ہو سکی۔ وفد نے نشاندہی کی کہ وقف بورڈ کے پاس پہلے سے رجسٹرڈ جائیدادوں کو اپ لوڈ کرنے کی ذمہ داری خود وقف بورڈ کے پاس ہونی چاہئے تھی اور اس کام کے لئے کم از کم دو سال کا وقت دیا جانا چاہئے تھا۔ لہٰذا، ہم درخواست کرتے ہیں کہ غیر رجسٹر شدہ جائیدادوں کو اپ لوڈ کرنے کی آخری تاریخ میں کم از کم ایک سال کی توسیع کی جائے۔
مسلم کمیونٹی سخت دباو اورمشکل میں
وفد نے وزیر کو بتایا کہ وقف ایکٹ/ UMEED ایکٹ میں ترامیم اور دفعہ 3B کے تحت UMEED پورٹل پر تفصیلات اپ لوڈ کرنے کی لازمی شرط نے پوری مسلم کمیونٹی کو سخت دباؤ اور مشکلات میں ڈال دیا ہے۔ سب سے پہلے، تمام رجسٹرڈ وقف املاک کو اپ لوڈ کرنے کے لیے چھ ماہ کی مقررہ مدت انتہائی مختصر تھی۔
دوم، پورٹل پر تفصیلات اپ لوڈ کرتے وقت کئی تکنیکی مسائل اور خرابیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ اس لیے تمام پراپرٹیز کو اپ لوڈ کرنا انتہائی مشکل اور عملی طور پر ناممکن ہو گیا۔
چھ ماہ کی ٹائم لائن ناکافی
نتیجتاً، پنجاب وقف بورڈ، مدھیہ پردیش وقف بورڈ، گجرات وقف بورڈ، اور راجستھان وقف بورڈ نے وقت میں توسیع کے لیے ٹریبونل سے رجوع کیا، اور ٹریبونل نے یہ توسیع منظور کی۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ وقف بورڈ بھی چھ ماہ کی ٹائم لائن کی تعمیل کرنے میں ناکام رہے اور انہیں مزید وقت کی درخواست کرنی پڑی۔ اس لیے وفد نے درخواست کی کہ متولیوں کو درپیش مشکلات کو دیکھتے ہوئے اپ لوڈ کرنے کی آخری تاریخ میں مزید ایک سال کی توسیع کی جائے۔
ایکٹ کےوقت اور پورٹل کی تاریخ میں فرق
وفد نے مزید کہا کہ ایکٹ میں بتائے گئے وقت اور پورٹل کو شروع کرنے کی تاریخ سے شمار کیے گئے وقت میں بھی فرق ہے۔ مزید برآں، UMEED کے قوانین کو صرف 03/07/2025 کو مطلع کیا گیا تھا، اور اسی تاریخ کو اپ لوڈ کرنے کے لیے مطلوبہ طریقہ کار اور تفصیلات سے آگاہ کیا گیا تھا۔ یہ نوٹ کرنا بھی ضروری ہے کہ متولیوں اور وقف بورڈ کے چیف ایگزیکٹیو افسروں کے ذریعہ جمع کرائے جانے والے اعلامیہ فارم کو پہلی بار UMEED قواعد کے ذریعہ 03/07/2025 کو مطلع کیا گیا تھا۔ لہذا، پورٹل کے آغاز کی تاریخ—06/06/2025— کو ایکٹ کے آغاز کی تاریخ نہیں سمجھا جا سکتا، کیونکہ یہ ایکٹ میں بیان کردہ تاریخ نہیں ہے۔
مدت میں مزید ایک سال کی توسیع کی جائے
مندرجہ بالا چیلنجوں اور مشکلات کے پیش نظر، ہم درخواست کرتے ہیں کہ ایکٹ میں مذکور ابتدائی چھ ماہ کی مدت میں کم از کم ایک سال مزید توسیع کی جائے، جس کے بعد، اگر ضرورت ہو، درخواست دہندگان مزید توسیع کے لیے ٹریبونل سے رجوع کر سکتے ہیں۔وفد نے مزید کہا کہ ہم سب خلوص اور تندہی سے پورٹل پر اپ لوڈنگ کے عمل کو مکمل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، اور ہم اس بات پر پختہ یقین رکھتے ہیں کہ اگر ابتدائی مدت کے لیے ایک سال کی توسیع دی جاتی ہے تو غیر معمولی حالات کے علاوہ کسی کو مزید توسیع کے لیے دوبارہ ٹریبونل سے رجوع کرنے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔
مسائل کا حل نکالینے کی یقین دہانی
آخر میں، ہم یہ یاد دلانا مناسب سمجھتے ہیں کہ وقف ایکٹ/UMEED ایکٹ، 1995، اور اس کی دفعہ 113 مرکزی حکومت کو یہ اختیار دیتی ہے کہ وہ ایکٹ کی دفعات کو نافذ کرنے میں پیدا ہونے والی مشکلات کو دور کرنے کے لیے احکامات جاری کرے۔وزیر موصوف نے بڑی سنجیدگی اور توجہ سے وفد کی بات سنی اور انہیں یقین دلایا کہ وہ بہت جلد ان مسائل اور مشکلات کا حل نکالیں گے۔
وفد میں شامل لیڈرز:
بورڈ کے نائب صدر جناب سید سعادت اللہ حسینی۔
جنرل سیکرٹری مولانا محمد فضل الرحیم مجددی۔
ایگزیکٹیو ممبر اور ممبر پارلیمنٹ بیرسٹر اسد الدین اویسی۔
جناب محمد ادیب (سابق ایم پی)۔
جمعیۃ علماء ہند کے جنرل سکریٹری مولانا محمد حکیم الدین قاسمی ۔
جمعیۃ علماء ہند (دہلی) کے جنرل سکریٹری مفتی عبدالرازق۔
بورڈ ممبران جناب فضیل احمد ایوبی ایڈووکیٹ، جناب حکیم محمد طاہر، ایڈووکیٹ، اور محترمہ نبیلہ جمیل، ایڈووکیٹ