تمل ناڈو کے وزیراقلیتی امور ایس ایم نصر نے واضح کیا ہے کہ سپریم کورٹ میں وقف ایکٹ کے حتمی فیصلے تک ریاست میں وقف بورڈ کی تشکیل نو نہیں کی جائے گی۔آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے تامل ناڈو حکومت کے اس فیصلے کو خوش آئند بر وقت، مناسب اور جرأت مندانہ قرار دیا جس میں اس نے سپریم کورٹ کا حتمی فیصلہ آنے تک نئے وقف ایکٹ کے تحت وقف بورڈ کی تشکیل نہ کر نے کا فیصلہ کیا ہے۔
آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے ترجمان ڈاکٹر سید قاسم رسول الیاس نے ایک پریس بیان میں تامل ناڈو کے وزیر اعلیٰ ایم کے اسٹالن اور حکومت تامل ناڈو کے اس اقدام کا خیر مقدم کیا جس کے تحت اس نے سپریم کورٹ کے حتمی فیصلہ آنے تک نئے وقف قانون کے تحت وقف بورڈ کی تشکیل نو نہ کر نے کا فیصلہ کیا۔ ریاستی اقلیتی امور کے وزیر ایس ایم نصر نے ایک پریس بیان میں اس فیصلہ کی اطلاع دی۔ انہوں نے کہا تامل ناڈو حکومت نہ صرف وقف ترمیمی ایکٹ2025 کی مخالفت کر تی ہے بلکہ اس نے اس قانون کو سپریم کورٹ آف انڈیا میں بھی چیلنج کر رکھاہے۔
تامل ناڈو حکومت کا یہ فیصلہ کہ جب تک سپریم کورٹ مذکورہ ترمیمی قانون پر اپنا حتمی فیصلہ نہ دے دے اس وقت تک ریاستی حکومت نئے قانون کے تحت ریاستی وقف بورڈ کی تشکیل نو نہیں کرے گی اور سابقہ وقف بورڈ جس کی مدت ختم ہو رہی ہے کو ہی بحال رکھے گی، بہت مناسب، بروقت اور جرأت مندانہ ہے۔
آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ حکومت تامل ناڈو کے اس اقدام کی نہ صرف پزیرائی کر تا ہے بلکہ دیگر ریاستی حکومتوں سے بھی اپیل کر تا ہے کہ وہ خود اپنی ریاستوں میں بھی اس طرح کے فیصلے کر کے سیکولر اور جمہوری اقدار اور دستور ہند کے اصولوں کی پاسداری کریں۔ڈاکٹر الیاس نے آخر میں وزیر اعلیٰ ایم کے اسٹالن کو اس جرأت مندانہ اقدام کے لئے آل انڈیا مسلم پرسنل لابورڈ، مسلمانان ہند اور تمام انصاف پسند افراد کی جانب سے مبارکباد پیش کی۔
ریاستی وزیر برائے اقلیتی بہبود ایس ایم ناصر نے بھی ایک پریس ریلیز جاری کرتے ہوئے اس بات کی تصدیق کی کہ تمل ناڈو حکومت وقف ایکٹ کی مخالف ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ ریاست نے ترمیم شدہ قانون کے آئینی جواز کو چیلنج کرتے ہوئے سپریم کورٹ میں ایک عرضی دائر کی ہے۔جب تک سپریم کورٹ اپنا فیصلہ نہیں سناتی، حکومت نے نظرثانی شدہ ایکٹ کے تحت نئے وقف بورڈ کی تشکیل شروع کیے بغیر موجودہ وقف بورڈ کو برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس اقدام کو ممکنہ قانونی اور انتظامی پیچیدگیوں کے خلاف تحفظ کے طور پر تعبیر کیا گیا ہے جو بعد میں ترامیم کو ختم کرنے کی صورت میں پیدا ہو سکتی ہیں۔