سپریم کورٹ نے اشوکا یونیورسٹی کے پروفیسر علی خان محمود آباد کو بڑی راحت دیتے ہوئے عبوری ضمانت دے دی ہے ۔ تاہم، کورٹ نے تحقیقات پر روک لگانے سے انکار کر دیا ہے۔سپریم کورٹ نے ہریانہ حکومت کو معاملے کی تحقیقات کے لیے ایک کمیٹی بنانے کا حکم دیا ہے۔ عدالت نے کہا کہ اظہار رائے کی آزادی ہے۔ لیکن اس وقت ایسی بات کیوں کی گئی؟بتا دیں کہ جسٹس سوریا کانت کی بنچ نے سپریم کورٹ میں اس معاملے کی سماعت کی۔ عدالت نے معاملے کی جانچ کے لیے 3 افسران پر مشتمل ایس آئی ٹی بنانے کا حکم دیا ہے۔ ساتھ ہی پروفیسر علی خان محمود آباد کی عبوری ضمانت منظور کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے ہدایت کی ہے کہ وہ زیر تفتیش دو پوسٹوں سے متعلق کوئی آن لائن مضمون یا تحریر نہیں لکھیں گے۔ اس کے علاوہ جنگ سے متعلق کوئی پوسٹ نہیں لکھیں گے ۔اور اسے اپنا پاسپورٹ سونی پت کی عدالت میں سونپنا ہوگا۔
وہیں سینئر وکیل کپل سبل نے پروفیسر کی طرف سے پیش ہوتے ہوئے کہا کہ علی خان کی اہلیہ حاملہ ہیں اور انہیں جیل بھیج دیا گیا ۔ اس پر عدالت نے علی خان کے تبصرہ پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ ہمیں یقین ہے کہ وہ بہت پڑھے لکھے ہیں۔ آپ دوسروں کو تکلیف دیے بغیر بہت آسان زبان میں اپنی بات کہہ سکتے تھے، آپ ایسے الفاظ استعمال کر سکتے تھے جو سادہ اور قابل احترام ہوں۔
سپریم کورٹ نے عائد کی شرائط :
سپریم کورٹ نے اس پورے معاملے کی جانچ کے لیے 3 آئی پی ایس افسران کی ایس آئی ٹی تشکیل دی ہے۔ سپریم کورٹ نے پروفیسر علی خان کو ہندوستانی سرزمین پر دہشت گردانہ حملوں یا ہندوستان کی طرف سے کی گئی جوابی کارروائی پر کوئی تبصرہ کرنے سے روک دیا ہے۔ سپریم کورٹ نے تین آئی پی ایس افسران پر مشتمل ایس آئی ٹی کی تشکیل کا حکم دیا ہے جس میں ایک خاتون افسر بھی شامل ہوگی جو ریاست سے باہر کی ہوگی۔ سپریم کورٹ نے 24 گھنٹے کے اندر ایس آئی ٹی کی تشکیل مکمل کرنے کی ہدایت دی ہے اور پروفیسر سے تحقیقات میں شامل ہونے اور تحقیقات میں مکمل تعاون کرنے کو کہا ہے۔
کیا ہے پورا معاملہ؟
آپ کو بتا دیں کہ 18 مئی کو پولیس نے ایسوسی ایٹ پروفیسر علی خان محمود آباد کو دہلی سے گرفتار کیا تھا۔ ان پر آپریشن سندور کے حوالے سے متنازعہ ریمارکس دینے کا الزام ہے۔پروفیسر علی خان نے آپریشن سندور کے حوالے سے پریس کانفرنس کرنے والی ونگ کمانڈر ویومیکا سنگھ اور کرنل صوفیہ قریشی سے متعلق 7 مئی کو سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ کرتے ہوئے تبصرہ کیا تھا۔ اس کے بعد پروفیسر کے خلاف دو ایف آئی آر درج کی گئیں۔ پہلا کیس سونی پت کے جٹھیڈی گاؤں کے سرپنچ نے درج کیا تھا۔ جبکہ دوسرا کیس ویمن کمیشن کی چیئرپرسن رینو بھاٹیہ نے درج کرایا ۔